بلوچستان کوئی کیک تو نہیں، آزاد ہوا تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا، جمال رئیسانی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ میر جمال خان ریئسانی نے کہا ہے کہ میں 100 ایم این اے کی سیٹ کیلئے اپنے والد کے ایک بال پر قربان کردوں گا، لاپتہ افرادپر آپ ضرورت بات کریں لیکن بی ایل اے پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اگر خدانخواستہ بلوچستان آزاد ہو تا ہے تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوںگا کے لاپتہ افراکا مسئلہ نہیں ہے بالکل یہ مسلئہ موجود ہے انہوں نے کہا کے مستونگ واقع غلط ہوا ہے اگر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی ہے جوپولیس نے جو کیا وہ بلوچی رسم رواج کے خلاف کیا ہے انہوں نے کہا کے وفاق میں بھی اگر ہم بیٹھتے ہے تو وفاق میں بلوچستان والوں کو کچھ سمجھا نہیں جاتاپنجاب اور سندھ کے مقابلے میںہماری سیٹیں بہت کم ہے اس وقت ہماری صرف 20 سیٹ ہے اور وہ 20 بھی آپس میں متحد نہیں ہے میں نے اور باقی ایم این اے نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ جب بلوچستان کی بات وفاق میں آتی ہے تو ہم اپنی پارٹی سے ہٹ کر بات کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں (نجی ٹی وی) سے خصوصی انٹرویو میں نوابزادہ جمال رئیسانی کہا ہے کہ بلوچ یکجتی کمیٹی کا احتجاج میرے حلقے سے شروع ہوا تھا 15 دن یہ پہلے کوئٹہ سریاب روڈ پر بیٹھے تھے احتجاج اس ملک اور صوبے میں ہرفرد کا آئنی حق ہے انہوں نے کہا کہ یہ بھی غلط تھا کہ بلوچی رسم و رواج کے حساب سے خواتین کی بہت عزت ہوتی ہے جب دو قبائل میں لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو ہمارے خواتین اگر اپنے دوپٹہ پہن لی تو وہ بھی خیر ہو جاتا ہے تو اتنا ہمیں عزت دیتے یہ غلط تھا کہ اگر پولیس نے لاٹھی چارج کیا یہ شیلنگ کی ہے یہ لیکن پھر سے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم کیا چاہتے ہیں احتجاج اگر ہم کر رہے ہیںکس بنیاد پر کر رہے ہیںلاپتہ افراد کا مسلہ جو میں سمجھتا ہوں کے ایک سنگین مسلہ ہے میں یہ نہیں کہوں گا کہ لاپتہ افراد کاکوئی مسلئہ نہیں ہے بلوچستان کے لاپتہ افراد بازیاب بھی ہوگئے ہیں اگرکوئی شخص اپنی مرضی سے بارڈر پار کرتا ہے تو بغیرثبوت کے بلوچستان حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ذمہ دارٹھہراتے ہے اگر کو ئی ثبوت ہے توآپ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے صوبائی حکومت بیٹھ کر ٹیبل ٹاک کریں انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2006میں ایک کمیشن بنایا تھا جس میں آپ کے سارے لوگ تھے سرکاری اداروں کے اہلکاربھی شامل تھے لاپتہ افرادکے مختلف فورم تھے جس میں ماما قدید بلوچ بھی شامل تھے کمیٹی اور کمیشن نے 70فیصدمسائل حل کر د یئے تھے ایدھی سمیت مختلف تنظیموںنے یہ دعوی بھی کیا تھا کے 40ہزارافرادکی شناخت نہیں کر پارے ہیں انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ پاکستان یا بلوچستان کو توڑنے کی بات کی جاتی ہے تو مسئلہ کیسے حل ہو گا بلوچستان کوئی کیک تو نہیں ہے خدانخواستہ بلوچستان اگر آزاد ہوتا ہے تو سب سے پہلے میں اٹھونگا کہ میرے دادا چچا والد اور بھائی نے قربانی دی ہے بلوچستان کا وارث میں ہوں کوئی خضدار سے اٹھے گا کوئی جھالاوان سے اٹھے گا کہ بلوچستان کے وارث ہم ہے اورو اس طرح ہم خانہ جنگی کی طرف بڑھیں گے اگر امن چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہے اگر بلوچستان کو آزاد کرنا چاہتے ہے تو ہم ان کے خلاف ہے دو تین مسئلے ہیں ماما قدید بلوچ کے دھرنے دیکھے تھے تو ان پر کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا انہوں نے کہا کہ ہمارے بلوچی رسم رواج میں خواتین کی بہت احترام ہے ڈاکٹر ماہ رنگ جو آئی ہے انہوں نے اس مسئلہ کو جو اٹھا یا ہے وہ خود ایک ڈاکٹر ہے ان کا معاشرہ میں ایک مقام ہے ان سے میں گزارش کروں گا کے بی ایل اے اور بی ایل ایف ہمارے سینکڑوںافراد کا قاتل ہے اس پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے میرے والد اور میرے بھائی کو جاں بحق کیا گیا، ایک ایم این اے کی سیٹ کے لیے ہمارے 300 سے زیادہ افراد کو شہد کیا گیا میں 100 ایم این اے کی سیٹ اپنے والد کے بال کے لیے قربان کروں گا لیکن جب میں دھرنے پر بیٹھا تھا تو میں ان کے پاس بھی گیا تھا میں نے لاپتہ افراد کے خلاف بات نہیں کی ہے حتیٰ کہ حقیقی لاپتہ افراد کے حق میں ہوں لاپتہ افراد کے پیچھے اگر دہشت گرد تنظیمیں ہے تو ہم ان کے خلاف ہے۔