عمران خان کی ایک بار پھر جی ایچ کیو کے باہر مظاہرے کی ہدایت دینے کی تصدیق


راولپنڈی(قدرت روزنامہ) پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی وضاحت بھی جاری کردی۔اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین پی ٹی ائی کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں عمران خان 9 مئی سے قبل جی ایچ کیو کے باہر احتجاجی مظاہرے کے بیان پر ڈٹ گئے اور وضاحت کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جی ایچ کیو کے باہر پُرامن احتجاج کی کال دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو کے باہر مظاہرے کے میرے بیان کو ایسے پیش کیا گیا جیسے میں نے 9 مئی واقعات کا اعتراف یا جرم کیا ہو، جی ایچ کیو کے باہر پرامن احتجاج سے متعلق میں نے تین وی لاگز بھی کیے جبکہ 12 مرتبہ پولیس تفتیش میں بھی جی ایچ کیو کے باہر پرامن احتجاج کا کہہ چکا ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ 14 مارچ کو میرے گھر پر حملہ کیا گیا،18 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر مجھے قتل کرنے کے کا پلان تھا ، جس کے میرے پاس ثبوت موجود ہیں، میں نے پارٹی کو کہا تھا کہ اگر فوج اور رینجرز مجھے گرفتار کریں تو آپ نے جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ کے باہر جا کر پرامن احتجاج کرنا ہے۔
اس پر صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے پُرامن احتجاج کی کال دی مگر نو مئی کو پُرامن مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ ہوا تھا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ احتجاج پرامن اس لیے نہیں ہوا کہ ان کا پہلے سے یہ پلان تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج اس لیے سامنے نہیں لا رہے کیونکہ ہمارے لوگ سی سی ٹی وی فٹیج میں موجود نہیں اور ہماری بے گناہی بھی اُسی سے ثابت ہوجائے گی کیونکہ فوٹیج میں تو کسی اور کے چہرے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جہاں سے مسئلہ ہوتا ہے وہیں احتجاج ہوتا ہے،پولیس سٹیشن کے باہر جا کر احتجاج نہیں کرتا، 9 مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیجز چوری ہونے پر میں عدالت جا رہا ہوں، میں خود رینجرز کے خلاف کیس کر رہا ہوں کہ کس طرح سابق وزیراعظم کو ہائی کورٹ کے احاطہ سے اغوا کیا گیا، کس نے رینجرز کو ارڈر دیا تھا کہ مجھے گرفتار کریں،کس نے پارٹی چیئرمین کو ڈنڈے مارنے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کا اغاز کر دیا ہے، 75 سالہ کینسر سے متاثرہ شخص رؤف حسن کو بھی حکومت نے گرفتار کر لیا ہے، سوشل میڈیا کے معاملے پر وہ تفتیش کریں گے جو خود این ار او 2اور فارم 47 سے حکومت میں آئے ہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ کسی طرح فوج و تحریک انصاف کے درمیان تصادم ہو، اگر معاملے کی شفاف تفتیش کرنی ہے تو پھر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
بانی چیئرمین نے کہا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کا خوف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو فوج کے ذریعے ختم کیا جائے، حالیہ بجٹ کے بعد حکومت کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔عمران خان نے کہا کہ سوشل میڈیا جمہوری عوام کی آواز ہے،خدا کا واسطہ ہے عوام کی اواز کو ڈیجیٹل دہشت گردی سے نہ جوڑیں، کسی بھی ادارے پر تنقید نہیں ہو گی تو ادارہ تباہ ہو جائے گا۔
صحافی کے سوال ’اپ نے اپنے دور حکومت میں قانون سازی کروا کر فوج کے خلاف بات کرنے پر سزائیں مقرر کی تھیں‘۔ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ تنقید اور تضحیک میں فرق ہوتا یے،ہمارے دور میں کوئی صحافی ملک چھوڑ کر گیا نہ قتل کیا گیا، ان سے بہتر تو پرویز مشرف کا لبرل دور تھا۔
صحافی نے پھر سوال کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے پر بھی کھلے عام تنقید کی جائے؟ عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کا ادارہ ہو یا کوئی اور ادارہ، ہر ادارے پر تنقید ہونی چاہیے، ان ججز کی سوشل میڈیا پر تعریفیں ہو رہی ہیں جنہوں نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔
عمران خان نے کہا کہ پاک فوج ن لیگ یا پیپلزپارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی ہے، فوج اگر فارم 47 کی حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی تو اس کی ساکھ متاثر ہوگی، فوج کا فارم 47 والوں کے ساتھ کھڑا ہونا ملک،معیشت اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اور ہورہا ہے اُس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے، جس طرح الیکشن کمیں ہمارا راستہ روکا گیا یہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ نواز شریف پر کرپشن کے اتنے کیسز تھے سب کے سب یکدم ختم کر دیے گئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ ہم نے مذاکرات پہلے بھی کیے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، یہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا ہمیں نقصان نہیں ہماری جماعت کو فائدہ ہو رہا ہے، جماعت اسلامی نے مہنگائی اور بجلی بکوں کے خلاف دھرنا دے کر زبردست کام کیا ہے اور میں جماعت اسلامی کے موقف کی تائید کرتا ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ اسلام اباد میں ہمیں جلسے کی اجازت نہیں ملی ہمارے کارکنان کو گرفتار کیا جاتا ہے، اسلام اباد میں اجازت نہ ملنے پر فیصلہ کیا ہے پانچ اگست کو صوابی میں بڑا پاور شو کریں گے، پانچ اگست کو کے پی کے اور پنجاب کے بارڈر پر جلسہ کریں گے جس میں ملک بھر سے کارکنان شرکت کریں، صوابی میں جلسے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ملکی حالات تقاضا کرتے ہیں کہ کوئی انتشار نہ ہو اور اگر کسی پارٹی کے پاس عوامی پاور ہے تو صوابی میں جلسہ کر کے دکھائے۔