گوادر میں ہزاروں زندگیاں خطرے میں ،حکومت نے رویے کو تبدیل نہ کیا تو پورے بلوچستان کو بند رکھیں گے ، بی وائی سی
تنظیم کا کہنا تھا بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لیے 26 جولائی سے ہی گوادر سمیت قریب و جوار کے تمام علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا تھا جو تاحال جاری ہے، 26 جولائی سے گوادر سمیت مکران کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہے گوادر میں نہ کسی کو اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ باہر آنے کی اجازت دی جا رہی ہے . ان کا کہنا تھا کہ 28 جولائی کے دن جب گوادر شہر کے عوام طاقت اور خوف کے سامنے پرامن طور پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بلوچ راجی مچی کے لیے پہنچے تو پرامن شرکا پر اندھادھند فائرنگ کی گئی جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور سات زخمی ہو گئے جن میں دو کی حالت اب بھی خطرے میں ہے، اس وحشت اور درندگی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ راجی مچی کے شرکاء پرامن رہے اور راجی مچی کو دوبارہ جاری کیا گیا ہے . انہوں نے کہا اس ظلم کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مچی کو دھرنے میں تبدیل کیا اور دھرنے کے دو مطالبات رکھے ایک، بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو کھول کر بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے تمام قافلے جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زبردستی روکے گئے ہیں، انہیں باحفاظت گوادر آنے کی اجازت دی جائے، دوسری، وہ تمام شرکاء جنہیں بلوچستان اور کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے انہیں رہا کیا جائے . لیکن دھرنے میں بیٹھے پرامن شرکاء جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، کے مطالبات سننے کے بجائے 29 جولائی کی صبح چاروں طرف سے دھرنا گاہ کو گھیر کر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی اور لاٹھیوں سے پرامن خواتین اور بچوں پر حملہ آور ہوئے جس میں خواتین و بچوں سمیت متعدد شرکاء زخمی ہوئے . انہوں نے کہا کہ وحشت اور درندگی کی انتہا یہ رہی کہ زخمیوں کو ہسپتال تک جانے نہیں دیا گیا اور نہ ہی ایمبولینس کو اس جگہ تک آنے کی اجازت دی گئی، جی ڈی اے ہسپتال گوادر کو سیل کر دیا گیا اور وہاں کسی مریض کو جانے نہیں دیا گیا . لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اٹھاتے رہے سینکڑوں پرامن شرکاء کو گرفتار کیا گیا، راجی مچی کے لیے اسٹیج کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرک کو نظر آتش کیا گیا اور اس کے قریب شرکاء کی جتنی بھی گاڑیاں کھڑی تھیں سب کو نظر آتش کر دیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا اس کے بعد گوادر کے گھر گھر میں چھاپے مارے گئے، لوگوں کی گاڑیاں اور قیمتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین سمیت سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے . . .