بلوچستان میں اسمبلیاں بکتی ہیں، ہمارے لوگ بیزار ہیں، نئی نسل کی آواز کو طاقت سے نہیں دبا سکتے، ثنا بلوچ
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسمبلی ثناءبلوچ نے کہا ہے کہ مجھے آج تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ پاکستان میں سویلین رول ہے یا ملٹری رول ہے ملک میں اگر صاف وشفاف الیکشن ہوتے تو آج بلوچستان کے حالات میں بھی تبدیلی نظر آتی ایک جمہوری حکومت ہوتی اس کے سیاسی نمائندے وزیر اطلاعات ،وزیر خارجہ ،وزیر داخلہ ہوتا وہ بڑے آداب کیساتھ احترام اور شواہد پر بات کرتا بلوچستان کا جو مسئلہ ہے یہ بیرونی آلہ کار ہیں یا اندرونی آلہ کار ہیں یہ ناراض ہیں یہ خوش ہیں تو شاید کسی کو بات سمجھ بھی آتی میری تمام اداروں سے گزارش ہے کہ ہم تو اسمبلی سے باہر چلے جائیں گے جو ہمارے بچے ہیں وہ اس تشدد میں اس بد مزگی ان لا پتا افراد کے سایہ میں غم کرب اور آنسوﺅں میں پلے بڑے ہونگے وہ آپ کیساتھ بات نہیں کرینگے وہ ایک عام جنریشن ہوگاان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا سماجی،سیاسی،معاشرتی ماحول اسلام آباد سے مختلف ہے شاید بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل آخر کیا ہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جتنے بھی مطالبات ہیں وہ ان مسائل کا حصہ ہیں پاکستان کا اسٹیبلشمنٹ گزشتہ 50سالوں سے بلوچستان سیاسی انتظامی ،معاشی ،آئینی طور پر ایک بہت بڑا بحران ہے جب بلوچستان میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے 2003کے بعد پالیسی بنائی اس میں یہ لوگ لچک نہیں دکھا رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ اور اسلام آباد کے ما بین دوریاں پیدا ہوگئی ہیں میں بحیثیت بلوچستان نیشنل پارٹی 8فروری کے بعد پاکستان کے اداروں نے جس طرح سیاسی مداخلت کی ہے بلوچستان میں اسمبلیاں بکتی ہیں، جمہوریت کا وجود نہیں ہیں عدالتیں انصاف نہیں دیتی، ہمارے لوگ بےزار ہوگئے ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ہزاروں لوگوں نے گوادر جلسے کیلئے جانے والے عوام نے اپنے ساتھ تین دن کا کھانا لے گئے تھے یہ ایک ایسا جوش اور نفرت ہے بلوچستان میں لوگ روزگار، بجلی، گیس نہیں چاہتے ہیں بلکہ اپنے لاپتا پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں، یہ 18سال کے جوان بھوک اور پیاس کو جانتے نہیں ہیں ابھی بھی بلوچستان کے مسائل کو نہ سمجھا گیا تو عام جنریشن کی آواز کو طاقت کے ذریعے نہیں دبایا جاسکے گا، بلوچستان حکومت فارم 47ہے جو 20 بیس کروڑ روپے دیکر اراکین بلوچستان اسمبلی بنے ہیں ان کے ذریعے آپ بلوچوں پر تشدد شروع کرینگے تو آپ بلوچستان کو بہت زیادہ دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔