طاقت مسئلے کا حل نہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کو جلسہ کرنے دیا ہوتا تو آج بلوچستان جام نہ ہوتا، ڈاکٹر مالک


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ جہاں کہیں بھی عوام کی رائے کا گلہ گھونٹا جائے گا اس کا ری ایکشن ضرور آئے گا اگر آپ عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتے ہیں تو یقینا عوام بھی حکمران کی رائے کا احترام نہیں کرینگے بنگلا دیش میں عوام کی رائے کا منطقی نتیجہ ہے بلوچستان میںکوئی احتجاج کرتا ہے جائز بنیادوں پر تو آپ اس پر تشدد کرتے ہیں پھر نتیجہ یہی نکلے گا سیاسی لوگوں کے ہاتھ سے پھر نکل جائے گا اور بنگلہ دیش میں بھی یہی ہوا ہے ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ میر صادق عمرانی ایک سینئر کارکن ہے حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کا جو صورتحال ہے وہ کچھ نرالہ ہے یہاں پر بلوچستان حکومت جو کچھ کررہا ہے شاید ان کے بہت سے اختیارات نہیں ہیں اگر ان کی خواہش ہو وہ آگے نہیں جاسکتی ہیں بلوچستان میں انسر جنسی 35سال کے بعد شروع ہوئی اس کی بنیادی وجہ کو ڈھونڈنے کے بجائے اس میں جو رائے اختیار کی نواب اکبر بگٹی شہادت کے بعد بلوچ عوام میں ایک ری ایکشن پیدا ہوا، اس ری ایکشن کو بہتر انداز میں ڈیل کرسکتا تھا لیکن بلوچستان میں مسئلوں اور مشکلات کو مزید جنم دیا ہے یہ جو بلوچستان میں جتنے مسائل پیدا ہوئے ہے وہ حکومت کی لا پرواہی ہے اگر بلوچ یکجہتی کمیٹی جلسے کی کال دیتی ہے تو اس کو چھوڑ دیتے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا بیشک 10لاکھ افراد کا جلسہ ہوجاتا لیکن آج یقین کریں پورے بلوچستان میں دو ہفتے سے مکران اور بلوچستان کے بیشتر بلوچ علاقے کوئٹہ،نوشکی،خضدار،خاران سب جام ہیں اگر تشدد نہیں ہوتا بے گناہ لوگ مارے نہیں جاتے اور گرفتاریاں نہیں ہوتی تو شاید یہ مسئلہ اس حد تک نہیں پہنچ پا تا میں سمجھتا ہوں یہ زور آوری ہے جب بھی آپ زور آوری کرینگے تو بلوچستان کے نوجوان روز بروز ریاست سے دور ہورہے ہیں بلوچستان کے نوجوان آہستہ آہستہ جمہوریت اور ریاست سے حکومت کی غلط فیصلوں کی وجہ سے دور ہورہے ہیں اس کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ان کو میں اسٹریم میں لانے کی ضرورت ہے بلوچستان کے عوام کو ریاست نے اپنے حق کا ووٹ نہیں دیا ہے آپ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجیں پھر پتہ چل جائے گا مسئلے حل ہونگے یا نہیں ہونگے حکومت بلوچستان میں وہی لوگ ہیں جو مسلم لیگ فنکشنل سے لیکر مسلم لیگ(ق) تک چلے آرہے ہیں اور آج یہی لوگ کچھ ادھر گئے ہیں کچھ اُدھر گئے ہیں یہ بلوچستان کی بد قسمتی ہے یہاں الیکشن سے پہلے ٹرانسفر پوسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے یہ تمام فارم 45والے نہیں ہیں ان میں میجارٹی فارم 47والے ہیں جب تک بلوچستان کے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے تو بلوچستان کے مسائل کیسے حل کرینگے انہوں نے کہا کہ مجھے میاں نواز شریف اور پاکستان کے عسکری قیادت اور آل پارٹیز نے ناراض بلوچوں کیساتھ مذاکرات کیلئے بھیجا گیا میں نے بلوچ لیڈرز کیساتھ مذاکرات کئے ان کا کیا نتیجہ نکلا ہے ہماری بات مان لیتے اس وقت بلوچستان کے 70فیصد مسئلے حل ہوجاتے بلوچستان ملٹرنس سے مذاکرات کچھ حد تک کامیاب ہوگئے تھے پھر میں نے یہاں کے عسکری قیادت کو رپورٹ پیش کی کہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن وہ مذاکرات ایسے ختم کردیئے گئے آپ تصور ہی نہیں کرسکتے ہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مذاکرات ہمارے پارٹی کے اشرف حسین کے گھر میں ہوئے ہیں ہم تو مذاکرات پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایسا وفاقی حکومت ہونی چاہیے جس میں پارلیمنٹ کی بالادستی ہو ہم عدم تشدد کے پیروکار ہیں مستونگ،تلار اور گوادر میں لوگوں کو مارا گیا ہے پتہ نہیں بلوچستان کے حالات کو اس نہج پر کیوں لے جارہے ہیں ۔