میں کھانا بنا رہی تھی، جب شوہر کی شہادت کا معلوم ہوا تو آنکھوں سے آنسوں نکل آئے ۔۔ جانیں شہیدوں کے گھر والوں کے بارے میں، جنہیں اچانک جوانو

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)شہید ویسے تو ملک اور وطن کے لیے ہوتا ہے مگر جب وہ شہید ہوتا ہے تو والدین اور گھر والوں کے لیے ایک احساس فکر ضرور ہوتا ہے۔ ملک کے لیے قربان ہونا کسی رتبہ سے کم نہیں لیکن اپنی فیملی کو یوں چھوڑ کر چلے جانا بھی آسان نہیں۔ اس خبر میں آپ کو ان شہیدوں کے بارے میں بتائیں گے جو اپنی جان قربان کرتے ہوئے شہید تو ہوئے مگر کسی نا کسی طرح اپنے گھر والوں کو اپنی شہادت سے متعلق آگاہ کرتے چلے تھے۔ کیپٹن کاشان علی شہید: کیپٹن کاشان علی رواں سال ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگیزی کے باعث شہید ہو گئے تھے۔ کیپٹن کاشان بھی پاکستانی فوج کے انہی جاںباز جوانوں میں سے ایک تھا۔ جس کا مقصد دنیاوی سکون ہر گز نہ تھا، بلکہ وہ ملک کے دفاع میں ہر حد تک جانے والا نوجوان تھا۔ کیپٹن کاشان شہید بھی عام بچوں کی طرح نہیں تھے، یعنی وہ بہت ہی خیال رکھنے وال، سمجھدار شخصیت کے مالک تھے۔ شہید کی والدہ اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ الحمداللہ میرے بیٹے نے شہادت حاصل کی، اللہ ننے مجھے پیارا بچہ عطا کیا تھا۔ بیٹا شہادت کی خواہش رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ ہم نے بچے کو اجازت دی۔ والدہ کہتی ہیں کہ بیٹا بہت معصوم تھا، عاجزی انکساری والا تھا۔ جبکہ والد کہتے ہیں کہ بیٹا کہتا تھا کہ میرا باپ دنیا کا بہترین باپ ہے۔ والد شہید پر صرف تعلیم سے متعلق ہی غصہ کیا کرتے تھے۔ کیپٹن کاشان اور ان کی بہن کی گفتگو نے سب کو رلا دیا تھا۔

شہید نے اپنے بہن سے گفتگو میں کہا کہ بہن نے سوال کیا کہ کیسے ہو بھائی تو شہید نے جواب دیا الحمداللہ دفاع وطن ہماری ذمہ داری ہے۔ حالانکہ یہ جملہ موقع کی مناسبت سے نہیں تھا مگر شاید شہید اس بات کو باور کرا رہا تھا کہ میں شہادت کے لیے تڑپ رہا ہوں۔ بھائی نے کہا کہ فکر نہ کرنا جس پر بہن نے کہا کہ ہمیں تمہاری فکر نہیں ہے قومی خود مختاری کی فکر ہے۔ شہادت سے پہلے بھائی اور بہن کی اس جذباتی گفتگو نے سب کو یہی پیغام دیا ہے کہ شہید شہادت کی تیاری کر رہا تھا جبکہ شہید کے گھر والے شہید کے لیے خوش تھے۔ شہید حافظ عتیق احمد: حافظ عتیق احمد کا شمار بھی پاکستانی فوج کے بہادر سپوتوں میں ہوتا ہے حافظ عتیق شادی شدہ جوان تھے جن کا ایک بیٹا بھی تھا۔ حافظ عتیق احمد 2009 میں سوات آپرشین میں دہشت گردوں کو ناکوں کان چنے چبواتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ شہید کے والد کہتے ہیں کہ وہ میرا بہت پیارا بیٹا تھا، وہ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے،

حافظ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیٹا کہتا تھا کہ جب میں اپنے ابو کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک عمرہ حج کا ثواب ملتا ہے۔ جبکہ شہید کی بہن کہتی ہیں کہ بھائی بہت پیارا تھا، وہ بہت خیال رکھتا تھا، بالکل ایسے ہی مجھے سمجھتا تھا جیسے میں اس کی ماں ہوں۔ شہید کی اہلیہ کا شہید عتیق سے شہادت سے 4 گھنٹے پہلے ہی رابطہ ہوا تھا بات چیت کر کے اہلیہ مطمئن ہو گئی تھیں انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہوگی۔ اہلیہ کہتی ہیں کہ میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی، تب ہی بیٹا ہمزہ کھیل کر واپس آیا، اسی وقت کمانڈنگ آفیسر گجراںوالہ اہلیہ سمیت گھر آئے۔ مجھے کافی حیرت ہوئی کیونکہ اس طرح وہ گھر پر کیوں آئے۔ بیٹے کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا اور وہ کافی افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے جانے کے کچھ دیر بعد مزید دو فیملیز گھر آئیں اور وہ اسی آپریشن کے بارے میں بات کر رہی تھیں جس میں شوہر بھی حصہ لے رہے تھے۔ پھر اچانک شوہر کے دوست کی والدہ نے روتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا، تب مجھے احساس ہوا کہ عتیق کو شہید ہو گئے ہیں۔ وہ وقت تھا جب میں نے اپنے آنسو قابو میں کرنے کی کوشش کی مگر میں بے اختیار رو پڑی۔ اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میرے شوہر شہادت کا رتبہ حاصل کر کے گئے۔ وہ شہید ہوئے ہیں اسی لیے میں بیوہ نہیں ہوں، کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ شہید کیپٹن کاشف علی: شہید کیپٹن کاشف علی، ایک فرماںبردار، ماں کے لیے ہر مصیبت برداشت کرنے والا بیٹا، باپ کی آںکھ کا تارا، مشکل وقت برداشت کیا مگر والدین کو پتہ تک نہیں لگنے دیا۔ کیپٹن کاشف رواں سال اگست بلوچستان کے علاقے آوران میں شہید ہو گئے تھے۔ جواں سال عمر میں کیپٹن کاشف کی شہادت نے ہر ایک کو نہ صرف افسردہ کر دیا تھا بلکہ ان کی والدہ کے بیان نے سب کو ہمت اور حوصلہ بھی دیا تھا۔ شہید کے والد کہتے ہیں کہ بیٹے سے شہادت سے 4 دن پہلے ملاقات ہوئی تھی، مگر آپ حیران ہو جائیں گے کہ مجھے پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بیٹے کی شہادت ہوگی۔ ہمیں بیٹا حالات سے متعلق کہتا تھا کہ سب نارمل ہے، بس دعاؤں کی درخواست کرتا تھا، بیٹا مشکل سے مشکل آپریشن کرتا تھا، کئی دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ والد کہتے ہیں کہ بیٹے کبھی مجھ سے نہیں کہا مگر امی سے کہا کہ مجھے جتنا یقین تھا کہ میں آرمی میں جاؤں گا اتنا ہی یقین مجھے شہادت کا بھی تھا۔ والدہ کہتی ہیں کہ بہت ہی فرماںبردار بیٹا تھا، میں جب بھی شادی کا کہتی تھی تو کہتا تھا کہ آپ کی مرضی ہے جہاں کرنا چاہو کردو۔ ہم نے لڑکی بھی ڈھونڈ لی تھی بیٹے کی شادی کے لیے۔ والدہ کا کہنا تھا کہ بیٹا ہمیشہ اچانک آتا تھا اور جب میں کہتی تھی کہ یوں اچانک کیوں آتے ہو، بتا دیا کرو تو وہ کہتا تھا کہ میں آپ کے چہرے کی خوشی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب کبھی میں بیٹھی ہوتی تھی، تو کہتا تھا کہ آپ کیا سوچ رہی ہوں، کیوں پریشان ہو؟ وہ ہمیشہ ہمارے لیے فکر مند تھا۔ شہادت سے کچھ پہلے ہی ہمیں عجیب سی تشویش آ رہی تھیں۔ میں رات کو سورہ فتح سمیت کئی سورتیں پڑھ کر بیٹے کا تصور کر کے اس پر پھونکتی تھی تب جاکر مجھے سکون ملتا تھا۔