حسینہ واجد کے بیٹے نے بنگلہ دیش میں سیاسی بے چینی کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈال دی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج کے نتیجے میں حال ہی میں مستعفی ہونے والی وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے کہا ہے کہ انہیں شبہ ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی بے چینی کی ذمہ دار پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہے۔
امریکی ریاست ورجینیا میں موجود سجیب واجد جوئے نے جرمن میڈیا کو ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش کی صورتحال سے متعلق ایک سوال کا دیتے ہوئے کہا کہ آدھی رات کو مارچ کرنا، افواہیں، سوشل میڈیا پر الفاظ کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا اور پولیس پر مسلح افراد کے حملے، ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صورتحال کے پیچھے غیرملکی انٹیلیجنس ایجنسی کا ہاتھ تھا۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کے پاس آتشیں اسلحہ کہاں سے آیا، کس نے انہیں یہ اسلحہ فراہم کیا، اسلحہ فراہمی کا واحد ذریعہ غیرملکی انٹیلیجنس ایجنسی ہوتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کو اتنی عجلت میں ملک سے اس لیے نکنا پڑا کیونکہ وہ اس وقت مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
’حسینہ واجد نے طلبہ کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی تھی‘
سجیب واجد جوئے نے کہا کہ ان کی والدہ نے پولیس اور فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ طاقت خصوصاً مہلک طاقت کا بالکل استعمال نہ کریں، جب مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو کہ میں طاقت کا استعمال نہیں کروں گی۔
انہوں نے کہا کہ میری والدہ کا کہنا تھا، ’میں اپنے ہاتھوں کو طلبہ کے خون سے نہیں رنگوں گی، اس کے بجائے میں استعفیٰ دے دوں گی۔‘
سجیب واجد جوئے کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے تومستعفی ہونے اور اقتدار کی ایک منظم آئینی منتقلی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن جب طلبہ نے ملٹری کی طرف مارچ کیا تو فوج نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور ہوائی فائرنگ کی، فوج کو ہدایت کی کی گئی تھی کہ طاقت کا استعمال نہیں کرنا۔
’ہم نے انہیں ملک چھوڑنے پر راضی کیا‘
انہوں نے کہا کہ جب طلبہ نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کی جانب مارچ شروع کیا تب ہم (خاندان والوں) نے وزیراعظم حسینہ واجد کو ملک چھوڑنے پر راضی کرلیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد نے فوج کے دباؤ میں آکر ملک نہیں چھوڑا، وہ تو ایسا کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں، انہیں ایس ایس ایف اور فوجی اہلکار چھاؤنی میں محفوظ مقام کی طرف لے گئے تھے۔
سجیب واجد نے مزید بتایا، ’جب وہ ملٹری ایئر فیلڈ گئیں تو اس وقت بھی وہ اس وقت بھی ہیلی کاپٹر میں سوار نہیں ہونا چاہ رہی تھیں، میری خالہ نے مجھے فون کیا اور کہا کہ والدہ کو ملک چھوڑنے کے لیے راضی کروں۔‘
حسینہ واجد حکومت کے طلبہ احتجاج سے نمٹنے کے طریقہ کار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ احتجاج کو جیسا ہونا چاہیے تھا، وہ اس سے زیادہ بھڑکا دیا گیا تھا۔
’حسینہ واجد سرکاری ملازمتوں میں رضاکاروں کے کوٹے کے خلاف تھیں‘
انہوں نے کہا کہ 15 جولائی کی رات سے جب احتجاج شروع ہوا تو وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ رضاکاروں کے خاندانوں کو سرکاری نوکریاں ملیں، وہ سرکاری ملازمتوں میں ان کے کوٹے کا جواز بتانے کی کوشش کررہی تھیں۔
سجیب واجد کا کہنا تھا کہ یہ سارا معاملہ واضح طور پر بھڑکایا گیا کیونکہ ان کے بیان کے بعد کچھ طلبہ نے بات پھیلائی کہ وزیراعظم نے انہیں رضاکار کہا ہے، اس رات ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک گروپ، جسے کوئی نہیں جانتا تھا، نے آدھی رات کو جلوس نکالا اور ‘ہم رضاکار‘ کے نعرے لگانے شروع کیے۔
انہوں نے کہا کہ اس حرکت سے ہمارے سپورٹر طلبہ (چھتر لیگ) ناراض ہوگئے اور یوں اگلے دن تصادم ہوا تو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ گروپ نے حملہ کیا اور بدقسمتی سے پولیس نے تصادم کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔
’بی این پی یا عوامی لیگ میں سے کوئی ایک جماعت جلد برسراقتدار ہوگی‘
احتجاجی مظاہروں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مہلک ہتھیاروں کے استمعال اور 300 سے زائد افراد کی ہلاکت سے متعلق انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد کی حکومت نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے والے پولیس افسروں کو معطل کردیا تھا، چند لوگوں کے غیرقانونی اقدامات کی ذمہ دار حکومت نہیں تھی، حکومت نے غیرقانونی اقدامات کرنے والوں کو فوری طور پر معطل کردیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد کے مستقبل میں سیاست میں حصہ لینے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک کہیں جانے کا فیصلہ نہیں کیا، انہوں نے بنگلہ دیش کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا، یہ ان کے عہدے کی آخری مدت تھی۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی اور عوامی لیگ ملک کی بڑی پارٹیاں ہیں، ان کے بغیر بنگلہ دیش میں جمہوریت ممکن نہیں، جلد یا بدیر ان دونوں جماعتوں میں ہی سے کوئی برسراقتدار ہوگی۔