کونسا بچہ اولمپکس گولڈ میڈل جیت سکتا ہے، اب مصنوعی ذہانت یہ بھی بتادے گی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اولمپکس میں شائقین آرٹیفیشل انٹیلیجینس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹیلنٹ اسپاٹنگ سسٹم )استعداد پرکھنے کا نظام) کو آزمایا جا رہا ہے جس سے مستقبل کے طلائی تمغہ جیتنے والوں کی نشاندہی ممکن ہوسکے گی۔
اس سسٹم کے ڈویلپرز کا مقصد اے آئی ٹیکنالوجی کا پورٹیبل ورژن استعمال کرنا ہے تاکہ کھیل کی جدید سائنس کو دنیا بھر کے دور دراز علاقوں تک پہنچایا جا سکے۔
جاپان کے یوکوہاما سے تعلق رکھنے والے 7 سالہ بہن اور 4 سالہ بھائی اے آئی سے چلنے والے ٹیسٹوں کی ایک سیریز میں حصہ لے رہے ہیں جو خصوصی طور پر پیرس کے اولمپک اسٹیڈیم کے قریب قائم کیے گئے ہیں۔ اس نظام کا مقصد مستقبل کے ممکنہ گولڈ میڈلسٹ کی شناخت کرنا ہے۔
ڈیٹا 5 ٹیسٹوں سے اکٹھا کیا گیا ہے جس میں دوڑنا، چھلانگ لگانا اور گرفت کی طاقت کی پیمائش جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔
اس کے بعد اس معلومات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ کسی شخص کی طاقت، چستی اور برداشت وغیرہ جسی صلاحتیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔
نتائج کا موازنہ پیشہ ورانہ اور اولمپک کھلاڑیوں کے ڈیٹا سے کیا جاتا ہے۔
انٹیل کے اولمپک اور پیرا اولمپک پروگرام کی سربراہ سارہ وکرز کہتی ہیں ہم کمپیوٹر وژن اور تاریخی ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں جس سے ایک ایوریج فرد اپنا موازنہ مایہ ناز ایتھلیٹس سے کر سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے کہ وہ کس کھیل سے زیادہ جسمانی طور پر منسلک ہے۔
ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد ہر شریک کو بتایا جاتا ہے کہ اس کے لیے فہرست میں شامل کون سا کھیل سب سے زیادہ موزوں ہوگا۔
انٹیل کا کہنا ہے کہ عمل مکمل ہونے کے بعد حصہ لینے والے لوگوں سے جمع کیا گیا تمام ڈیٹا حذف کر دیا جاتا ہے۔
اس اے آئی سسٹم کو پیرس 2024 میں شائقین بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بہت چھوٹا اور زیادہ پورٹیبل ہے اور ان ڈیوائسز پر آرام سے چلایا جا سکتا ہے جن میں ایکبنیادی کیمرہ اور تھوڑی کمپیوٹنگ پاور ہو۔
سارہ کہتی ہیں کہ صرف ایک موبائل فون یا ٹیبلیٹ یا پی سی کے ذریعے آپ اس سسٹم کو ایسی جگہوں پر لے جاسکتے ہیں جہاں پہلے انہیں نہیں لے جایا جاسکتا تھا۔
یہ اے آئی ٹیکنالوجی جسمانی سینسر کی ضرورت کے بغیر صرف کیمرے سے ویڈیو کا تجزیہ کرکے لوگوں کی کارکردگی کا اندازہ لگا سکتی ہے۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی حال ہی میں اس نظام کو سینیگال لے گئی جہاں اس نے تقریباً 5 مختلف دیہاتوں کا دورہ کیا اور ایک ہزار سے زیادہ بچوں کی ایتھلیٹک صلاحیتوں کا جائزہ لیا۔
سینیگال کی نیشنل اولمپک کمیٹی کے ساتھ شراکت داری اور مزید جدید ٹیسٹوں کے فالو اپ راؤنڈ کے بعد اس نے 48 بچوں کی شناخت کی جن میں بڑی صلاحیت موجود تھی اور ان میں سے ایک تو غیر معمولی صلاحیتیوں کا حامل تھا۔
امید کی جاتی ہے کہ اس نظام کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال ایسے علاقوں میں لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے جہاں تک زیادہ تشخیصی نظام کے ساتھ پہنچنا ناممکن ہو گا۔
یونیورسٹی آف سفولک کے پروفیسر جان بریور نے انگلینڈ کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے ساتھ ٹیلنٹ کی شناخت پر کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں صلاحیتوں کو تلاش کرنا کھیلوں کی دنیا کے لیے ایک در نایاب ثابت ہوگا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ایک بنیادی نظام جو صرف چند صفات کی پیمائش کر سکتا ہے اس وقت محدود ہو جائے گا جب بات فٹ بال یا باسکٹ بال جیسے تکنیکی کھیلوں کی ہو یا جن میں برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی کسی بھی شخص کی بنیادی صلاحیت کو جانچنے کے لیے خاصی سودمند ثابت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ پورٹیبل ہے اور اسے ایسے علاقوں میں لے جایا جا سکتا ہے جہاں ہائی ٹیک تشخیصی طریقے موجود نہیں تو یہ ایک اچھی چیز ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑے ٹیلنٹ کی شناخت کے نظام کا صرف ایک حصہ ہوگا۔