یہ نہیں ہوسکتا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو: جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ نہیں کہ سپریم کورٹ کے آرڈرز پر عملدرآمد نہ ہو، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کہا گیا جو درست نہیں، میں سینئر ترین جج ہوں قائم مقام چیف جسٹس نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں، میں سینئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تندرست اور توانا ہیں، اللہ پاک ان کو صحت دے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا غیر آئینی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی کے پاس یہ آپشن نہیں کہ کہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ اقلیت صرف نمبر کی بات ہے، جو رائٹ مسلمانوں کے ہیں اقلیتوں کیلئے بھی وہی تمام حقوق ہیں، اقلیتوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن پاکستان کے بارے میں جو رپورٹ انٹرنیشنل آرہی ہیں وہ ٹھیک نہیں، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشری میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا، ہمارے حضور پاکؐ نے کہا مذہبی آزادی سب کو ہے، حضور پاکؐ نے عیسائیوں کے چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے سے روکا اور عیسائیوں کو حقوق دیئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیمات دیتا ہے، اسلام کے بعد آئین پاکستان کی بات کریں تو آئین پاکستان بھی اقلیتوں کو تحفظات فراہم کرتا ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 21,22,23،25 دیکھیں جو کہ اقلیتوں سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ میں اقلیتوں کیلئے پانچ فیصد کوٹے کا تحفظ یقینی بنایا تھا، سپریم کورٹ قرار دے چکی پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، بین المذاہب ہم آہنگی پر مباحثے کی ضرورت ہے، تمام مذاہب دوسرے مذاہب کو جگہ دیتے ہیں تو ان کے ماننے والے کیوں نہیں دیتے؟
جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ہر مذہب ایک دوسرے کو جگہ دے رہا ہے لیکن ہم کیوں اتنے تنگ نظر ہیں، ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا، بابا گرونانک سمیت ہر مذہب کے رہنماؤں نے احترام و بردباری کی بات کی، سمجھ نہیں آتی کہ مذہبی انتشار اور غصہ کیوں کیا جاتا ہے؟