پاکستان اسٹیل ملز کے نقصانات 6 سو ارب روپے تک پہنچنے کا انکشاف


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) پاکستان اسٹیل کے نقصانات 6 سو ارب روپے تک پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے، اسٹیل ملز کے نقصانات 224 ارب اور ادائیگیوں کا بوجھ 335 ارب ہے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے تحقیقات کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سید حفیظ الدین کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل کے آپریشنز، اثاثوں اور اخراجات کا جائزہ لیا گیا۔
چیف فنانشل آفیسر محمد عارف نے انکشاف کیا کہ اسٹیل ملز کی 305 ایکڑ پر انکروچمنٹ ہو چکی ہے، اسٹیل ملز وفاقی حکومت اور نیشنل بینک کی 258 ارب کی نادہندہ ہے، نیشنل بینک کے 102 ارب اور وفاقی حکومت کے 156 ارب واجب الادا ہیں۔
چیئرمین کمیٹی حفیظ الدین نے کہا کہ سال 2008ء میں پاکستان اسٹیل ملز نے 9.6 ارب روپے منافع کمایا تاہم 2008ء سے 2024ء کے دوران اسٹیل ملز کو 700 ارب روپے نقصان ہو چکا ہے یہ نقصانات 18 ارب ڈالر کے مساوی ہیں، ایس آئی ایف سی نے اسٹیل مل کو اسکریپ کرنے کی سفارش کی تھی۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ اسٹیل مل قومی خزانے پر ایک بوجھ بن چکی ہے، سندھ حکومت سے کہا گیا ہے کہ اس کی زمین صنعتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیل مل کے اثاثے 900 ارب روپے کے ہیں، اسٹیل مل 60 لاکھ روپے فی گھنٹہ نقصان کر رہی ہے، اسٹیل مل کے ذمہ 35 ارب کا قرضہ ہے۔کمیٹی نے اسٹیل ملز سے متعلق دو رپورٹس طلب کرلیں۔
رانا تنویر حسین نے کہا کہ اسٹیل مل کی 19 ہزار اراضی میں سے صرف 700 ایکڑ پر پلانٹ ہے، 500 ایکٹر اراضی پر صنعتی زونز بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے، اسٹیل مل کی 4 ہزار ایکڑ سے زیادہ اراضی پر صنعتی پارکس اور اقتصادی زونز بنا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹیل مل میں چوری اور زمین پر قبضے سمیت سب کچھ ہورہا ہے، اسٹیل مل کی زمین پر غیر قانونی قبضہ خالی کرانے کے لیے آپریشن کیا جائے گا، اسٹیل مل کی 305 ایکڑ زمین پر قبضہ ہوچکا ہے، اسٹیل مل کے مستقبل کا فیصلہ سندھ حکومت کرے گی، مل بحال کرنی ہے یا نیا پلانٹ لگانا ہے یہ سندھ حکومت کی صوابدید ہے۔
رانا تنویر نے کہا کہ روس سمیت دیگر ممالک کی کمپنیاں اسٹیل ملز کو چلانا چاہتی تھیں، اسٹیل ملز کو بحال کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی کپیسٹی نہیں ہے، اسٹیل ملز کی دو ارب کی بھٹی کیلئے ہر سال 6 ارب کی گیس دینا پڑتی ہے، ملز کی جو زمین فروخت ہوگی اس پر ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بننے دیں گے۔
کمیٹی رکن عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی زمین پر سب کی نظریں ہیں، اسٹیل ملز کے ملازمین 9 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار تک رہ گئے۔ بعدازاں اسٹیل ملز میں تحقیقات کے لیے ناز بلوچ کے زیر صدارت ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔