سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی گرفتاری سے متعلق افواہوں کو بیہودہ قرار دے دیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور کورکمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کی ٹاپ سٹی معاملے میں فوجی حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور کورٹ مارشل کو لے کر بہت ساری قیاس آرائیاں جاری ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار گرفتار ہو سکتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں اپنی گرفتاری کے بارے میں اڑنے والی افواہوں کو لغو اور بیہودہ (بلشٹ) قرار دیا، وہیں ٹاپ سٹی مقدمے میں اپنے اوپر الزامات کو صریحاً غلط اور مبالغہ آرائی پر مبنی قرار دے دیا۔
ٹاپ سٹی کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں
اُن کی جانب سے ٹاپ سٹی مقدمے کی ہیومن رائٹ درخواست کی اِن چیمبر سماعت اور اُس پر موجودہ چیف جسٹس کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں۔
ٹاپ سٹی مقدمے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کیا تعلق ہے؟
2017 میں زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون نے سپریم کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں درخواست دائر کی تھی جو کہ ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کی زمین کی ملکیت کے جھگڑے سے متعلق تھی۔
ٹاپ سٹی ہاؤسنگ کی زمین کا جھگڑا، زاہدہ جاوید اسلم اور کنور معیز احمد خان کے درمیان تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دونوں فریقین کو چیمبر میں بلا کر اس معاملے میں ایف آئی اے، انسداد دہشت گردی اور راولپنڈی پولیس کو نوٹسز جاری کئے تھے، لیکن موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 8 نومبر 2023 کو اس کاروائی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جس طرح سے اس مقدمے کی ان چیمبر سماعت کی اور احکامات جاری کیے وہ صرف کھلی عدالت میں ہو سکتے تھے اور سپریم کورٹ میں ویسے بھی سنگل جج کے مقدمہ سننے کی کوئی مثال نہیں۔
بعد ازاں اس بینچ نے اس ہیومن رائٹس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہیومن رائٹس سیل میں دائر درخواستوں کو سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کنور معیز احمد خان اور زاہدہ جاوید اسلم کے درمیان ٹاپ سٹی کی ملکیت کا معاملہ متعلقہ عدالتی فورم پر حل ہو گیا تھا۔
جنرل فیض حمید پر الزامات
تاہم کنور معیز احمد خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 12 مئی 2017 کو ان کے مؤکل اور اہلخانہ کو اغواء کیا گیا تھا۔ کنور معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ آئی ایس آئی کے افسران نے 12 مئی 2017 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے ایما پر ٹاپ سٹی کے ہیڈ آفس جی الیون مرکز پر ریڈ کیا اور وہاں سے زمین کی رجسٹریاں، کیش، سونا اور دیگر قیمتی دستاویزات قبضے میں لے لی تھیں۔
انہوں نے درخواست میں جنرل(ر) فیض حمید سمیت دیگر سابق فوجی افسران کو فریق بنایا تھا۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اس ریڈ کا مقصد درخواست گزار کی زمین پر قبضہ کرنا تھا۔لیکن اس پر چیف جسٹس نے کہا اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری خفیظ الرحمٰن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کاررروائی نہیں کی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کنور معیز احمد خان کی سپریم کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دائر کی گئی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہیومن رائٹس سیل میں دی گئی درخواستیں غیر قانونی ہیں۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سابق یا حاضر سروس فوجی افسران کے خلاف شکایات کے لئے متعلقہ فورم کیا ہے؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل چوہدری خفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کسی زاہدہ جاوید اسلم نامی ایک خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے، جس پر چوھدری خفیظ الرحمٰن نے کہا کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ہیومن رائٹس سیل میں ازخود نوٹس کے تحت کس طرح سے درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں، جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں، جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ان چیمبر سماعت اور عدالتی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے کسی درخواست پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے خلاف صرف چیمبر اپیل کا تصور موجود ہے۔
زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست پر متعلقہ عدالت پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے اور کنور معیز احمد خان ریٹائر فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع اور متعلقہ فورمز پر درخواستیں دائر کر سکتے ہیں۔