بیرونی دنیا سے کوئی خطرہ نہیں، پاکستان ہم خود تباہ کررہے ہیں، محمود خان اچکزئی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور ر کن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ آج ہمار پاس سندھ سے سائیں جی ایم سید کے نواسے زین شاہ نے اسلام آباد میں آکر کہا کہ میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کا حصہ بننا چاہتا ہوں ، آزادی انسان کی زندگی کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے ، پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ برصغیر میں جتنی بھی مسلم سیاسی تحریکیں تھیں انہوں نے اس نظریئے کا ساتھ نہیں دیا ۔ مجاہدین اسرار جماعت ، اسلامی جمعیت علمائے ہند، خدائی خدمتگار، ہمارے اکابرین ، سندھ کے بعض لوگ ، جی ایم سید کے ، جو مسلمان پارٹیاں تھیں سب نے متحدہ ہندوستان کی بات کی ۔
پاکستان بنتے ہی عبدالصمد اچکزئی، عبدالغفار خان، حیدر بخش جتوئی ، سندھ کے بعض لوگوں نے باقاعدہ اعلان کیا کہ ہم متحدہ ہندوستان کیلئے جدوجہد کررہے تھے اب پاکستان بن گیا ہے ہمارا گھر ہمارے وطن اس علاقے میں ہم اس سٹیٹ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو“۔ پاکستان بنا ہے 77سال ہوگئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انگریزوں کو نکلانے کی خواہش کیوں ظاہر کی ، گاندھی جی ، محمد علی جناح اس لیئے نہیں کہ ہم انگریز سے نفرت کرتے تھے کہ وہ عیسائی ہے ۔ اگر حکمرانی کی بات یہ ہو کہ سڑکیں بنائی جائیں،یونیورسٹیاں بنائی جائیں ، ریولے لائن بچھائی جائیں تو یہ چیزیوں ہمیں بہترین انداز میں دیں بہترین یونیورسٹیاں ، پولیس کا بہترین نظام ہمیں دیا جو اب بھی ہے اور جس کو ہم نے خراب کردیا ۔ جوڈیشری کا بہترین نظام دیا ۔
جب ہمارے اکابرین نے کہا کہ ہماری جان چھوڑو اس لیئے نہیں کہ ہمیں ان سے نفرت تھی اصل میں ہمارے اکابرین حق حکمرانی چاہتے تھے ۔ آزادی کا مطلب ہے اپنے آپ پہ حکمرانی کرنا اپنے وطن پر اپنے اختیارات کے ساتھ ساپنی مرضی کی حکمرانی کرو ، ہم حق حکمرانی چاہتے تھے ۔ حق حکمرانی ہمیں ملا لیکن ہم نے حق حکمرانی نیچے تک نہیں دیا لوگوں کو آج جو لڑائیاں ہورہی ہیں کہ فلانی جنگ آزادی کی تحریک ہے ، فلاں جگہ دھماکے ہورہے ہیں ، یہ اصل میں یہ لوگ اس ملک میں ایک آزاد پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنے وطنوں پہ حق حکمرانی چاہتے ہیں جو ان کا حق ہے ۔ بلوچ ، پشتون ، سندھی ، سرائیکی اور پنجاب کے عوام اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ پہ خود حکمران ہوں ہمارے وطن میں جو نعمتیں اللہ پاک نے دیں ہیں ان پہ ہماری بچوں کا حق ہو اس کا طریقہ صرف یہی ہے جو اس اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے بنایا ہے ۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی دنیا سے خطرہ نہیں ہے اندر سے ہم نے اسے تباہ کیا ہے ، ہمارے مسائل سارے اندورنی ہیں ہم سب بھیڑیوں کی طرح اسے نوچ رہے ہیں اس کی آنکھیں نکال رہے ہیں اورہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ ملک بالکل کولیپس ہونے کے قریب ہے ،
میں کسی کا نام نہیں لیتا کسی کے پاس کچھ نہیں تھا آج وہ اربوں میں کھیل رہا ہے کہاں سے ؟ ابھی جو الیکشن ہوئے اس کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے سوسائٹی ساری اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن ۔ہمارا دین ہمارے سیاسی اعمال پہ اثر انداز نہیں ہے ہم نمازیں پڑھتے ہیں لیکن اعمال یہ ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک خدانخواستہ ٹی بی کے مریض کی طرح رو بہ زوال ہے اور اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم توبہ کریں ، اسٹیبلشمنٹ ، سیاسی، مُلا ، پیر اور فقیر سب توبہ کرے اور نئے سرے سے تمام ملک کے عوام کی اجمتاعی دانش سے نئے جمہوری پاکستان کیلئے بسم اللہ کریں ایک ایسا پاکستان جس میں فرد کا فرد پر ، فرقے کا فرقے پر کسی قوم کا دوسرے قوم پر ظلم نہ ہو ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گیا رہ تاریخ کو اقلیتیں نکلی تھیں رو رہی تھیں لاہور میں اور گیارہ تاریخ کو شاید انہوں نے اس لیئے منتخب کیا تھا کہ اس تاریخ کو محمد علی جناح صاحب کی تقریر ہے جنہوں نے بہت واضح کہا ہے کہ پاکستان کا بننا ایک معجزے سے کم نہیں ،دنیا حیران ہے کہ ہندوستان کیسے تقسیم ہوا۔ یہ ماضی کی باتیں ہیں آج کے بعد اس ملک میں مسلمان مسلمان، ہندو ہندو نہیں رہینگے اور یہ ایک ملک کے شہری ہونگے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ ہم سب بڑی پارٹیوں کو مل بیٹھ کر جس طرح چارٹر آف ڈیموکریسی دستخط ہوا تھا اسی طرح ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنانی ہوگی اور اس کا گواہ عوام کو بنانا ہوگاکہ جس کی حکومت بنی وہ ہم سے وعدہ کریگا کہ وہ ہماری ماﺅں ، بیٹیوں ، غریب باپ ،دادﺅں کی قبریں نہیں اکھاڑے گا۔ اس ملک میں جو بکتا ہے وہ وفادار جو خریدتا ہے
وہ وفادار اور جو یہ دو گناہ نہیں کرتا وہ اُلو کا پٹھا یہ کیسے چلے گا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حق اور باطل کی لڑائی روز اول سے جاری ہے اور ہم حق کے سپاہی ہیں اورایمانداری سے کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمام انسانیت خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے جنہوں نے نیک عمل کیا ۔ جنہوں نے حق کی بات کی ہے اور اس کے نتیجے میں جو تکلیف آئی اُسے برداشت کیا صبر کے ساتھ سوائے اس انسان کے باقی سب فارغ لوگ جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتے جو جمہوری لوگ ہوتے ہیں وہ کمروں میں بیٹھ کر گزارہ نہیں کرتے وہ اپنے عوام میں پھرتے ہیں بجلی کی طرح۔ یہ لوگ جب نکلیں گے تو ان پر انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش ہوگی غریب کے غصے کی بارش ہوگی جس کے بچے بھوس سے مررہے ہیں جس پارلیمنٹ کا سپیکر اپنے گم شدہ ایم این اے کیلئے نہ بول سکے اور کہے کہ میں سپیکر ہوں میں نے کہا نہیں حوالدار جی میں تجھے سپیکر نہیں مانتا ۔ 30آدمی قتل ہوئے ایک شریف آدمی نے استعفیٰ نہیں دیا ایک آدمی نے یہ نہیں کہا نہ ڈی سی ، نہ چیف سیکرٹری نہ ہوم سیکرٹری نے کہ مُجھ سے غلطی ہوئی ۔ اور یہاں کیا ہوتا رہا جی ہمارے ایجنسیاں لوگوں کے کال ٹیپ کرتے رہیں
ہم نے اجازت دے دی اسکی ۔ اس پر بھی کسی کو بولنے نہیں دیا کیا یہ پارلیمنٹ ہے یا ڈیبٹنگ سوسائٹی ہے ؟ ہم نے قربانیاں دیں ہیں ، ہم لڑے ہیں جمہوریت کیلئے ۔ بھلے میں اس پارلیمنٹ کا رکن نہ ہوں لیکن پاکستان کے تمام اقلیتوں تمام عیقدوں کی نمائندگی ہونی چاہیے ۔ہم لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں کیا آسمان گریگا کہ آپ کسی خاتون کسی اقلیت کو بولنے دینگے اگر غلط بات کی تو اس کی بات کاٹ دو۔ پارلیمنٹ کے تقاریر کو بلیکٹ آﺅٹ کرتے ہیں اور یہاں ٹی وی سکرینوں پہ جو یار لوگ ہیں وہ لگے رہتے ہیں ایسا نہیں چلے گا۔ عوام نے تو بڑے بڑے اکابرین کو فارغ کیا ایک پارٹی کو ووٹ دیا آپ کو کیا تکلیف ہے کہ انہیں نہیں چھوڑ رہے ۔ لوگوں کا راستہ روکنا ٹھیک نہیں ،تیری مرضی پہ تو چلتے چلتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ۔ یہ ایٹمی طاقت کا ملک جس کا اقوام متحدہ کے امن افوام میں بڑی تعریف کی جاتی ہے آپ یہاں تک آگئے ہیں کہ آپ نام نہیں لے سکتے نیتن یاھو کا ۔ ساﺅتھ افریقہ نے اس کے خلاف کیس کیا ہے کہ یہ آدمی مجرم ہے ترکی نے دو ہفتے بعد اس کو جوائن کیا ہم ابھی تک خاموش ہیں اور جنت جانے کی خواہش بھی رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ میں نے مومن سے جنت کا سودا کیا ہے اُس نے مجھے سرومال دینا ہے میں نے جنت دینی ہے۔