بلوچستان

حب میں لوٹ مار کا بازار گرم، پولیس شہریوں اور تاجروں کو تحفظ دینے میں ناکام


حب(قدرت روزنامہ)حب لوٹ مار کا بازار گرم پولیس شہریوں اور تاجروں کو تحفظ دینے میں ناکام چوری ڈکیتی لوٹ مار کی پے درپے وارداتوں کے باوجود پولیس کے کان پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آرہی ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکامی یا پھر ملی بھگت کا نتیجہ ہے شہریوں تاجروں اور عوامی حلقوں نے سوال کھڑے کر دیئے نامعلوم چور چیئرمین نیشنل پیس کونسل کی موٹر سائیکل بھی لے ا±ڑے پھر عام شہریوں کی کون سنے گا عوامی حلقوں کا آئی جی پولیس بلوچستان سے سوال اس حوالے سے سرکاری سطح پر قائم نیشنل پیس کونسل قلات ڈویژن کے چیئرمین عبدالکریم زہری کے مطابق گزشتہ روز ا±سکا بیٹا محمد شبیر زہری کسی کام سے ا±سکی سیاہ رنگ کی سی ڈی 70موٹر سائیکل لیکر بازار کسی کام سے گیا اور شیخ ابراہیمی مارکیٹ کے سامنے موٹر سائیکل کھڑی کرکے مارکیٹ میں گیا تاہم واپس آیا تو موٹر سائیکل غائب تھی واضح رہے کہ حب شہر کے تین تھانوں سمیت ساکران تھانہ کی حدود میں حالیہ دنوں لوٹ مار چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کی ایک لہر آئی ہوئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر وارداتیں اور مزاحمت کے دوران فائرنگ کرکے شہریوں تاجروں کوقتل وزخمی کرنے کی وارداتیں ہو رہی ہیں عوامی احتجاج پر پولیس حکام آکر روایتی طفل تسلی دیکر احتجاج تو ختم کر ادیتے ہیں لیکن نہ ڈکیتوں نہ چوروں اور نہ ہی لوٹ مار اور نہ ہی قاتلوں کا سراغ لگایا جاتا ہے ضلع حب کے غیر فعال SPنے پورا سسٹم اپنے ایک بیٹر SHOکے حوالے کررکھاہے تھانے اور پولیس چوکیاں ٹھیکے پر نیلام کی گئی ہیں پولیس چوکیوں پر پولیس اہلکاروں نے روزانہ اجرت پر پرائیوٹ سول افراد کو بھتہ وصولی پر مقرر کر رکھا ہے جہاں سے روزانہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف حب اور ساکران کے عوام شہریوں تاجروں اور صنعتکاروں کو چوروں ڈکیتوں قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب ہر ادارے میں خود احتسابی کا عمل موجود ہے تو پھر پولیس کا محکمہ جو کہ عوام کے جان ومال کا محافظ ہے کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف احتساب کیوں نہیں کیا جاتا اسوقت حب ضلع کے پولیس افسران اور بالا افسران وSHO,sکے بیٹر حوالدار سپاہی رینک کے اہلکاروں کے آمدن سے زائد کروڑوں روپے کے اثاثے نہ صرف حب لسبیلہ بلکہ کراچی میں موجود ہیں جنکی تحقیقات کرائی جائے اور پولیس کی بدنامی کا سبب بننے والے اہلکار وافسران کے خلاف سزا کا شفاف عمل کیا جائے تو نہ صرف عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے بلکہ امن وامان کی فضا بھی قائم ہوسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں