محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے جون میں 70 ارب روپے لیپس کیے، چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی)کا اجلاس اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے مالی سال 2021-22 کے کی جانچ پڑتال اور 2022-23 کے پیراز کی مکمل چھان بین کی گئی۔ اجلاس میں سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ, سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو لعل جان جعفر, اے جی نصراللہ جان, ڈاریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی, ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکانٹس کمیٹی سراج لہڑی, چیف اکانٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس, ایڈیشنل سیکرٹری لا سید نصیر شاہ,ڈپٹی سیکرٹری لا مزمل زہری, ڈپٹی سیکرٹری محکمہ خزانہ محمد اصغر,چیف انجنیر سی اینڈ ڈبلیو ڈاکٹر سجاد بلوچ اور سی اینڈ ڈبلیو کی ایس ایز و دیگر انجینرز سمیت محکمہ صحت کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد عارف, ایم ایس ہیلپرز آی ہسپتال حفیظ الرحمن محمد شی, پروفیسر سرجن شیرین خان,روح الامین مینگل اے ڈی فنانس و دیگر آفیسز نے شرکت کی۔پی اے سی نے بجٹ پر مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا محکمہ خزانہ کی کمزوریوں اور ناکامی کے نتیجے میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے جون کے ماہ میں تقریبا 70 ارب روپے ضائع کئیے۔ چیئرمین نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی کوتاہی کو جرم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ عوامی فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کمیٹی نے محکمہ خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ ان طریقوں پر اپنی پوزیشن واضح کرے کہ عین جون کے آخر میں ایک محکمہ کیسے پیسے سرینڈر کرتا ہے۔ کمیٹی نے اس طرح کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے سیکرٹری خزانہ کو سخت اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ چیئرمین نے میٹنگ میں محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے نمائندے کی عدم موجودگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پی اینڈ ڈی اجازت کیسے دیتی ہے اور اس حوالے سے انہیں ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے اپنا موقف بیان کریں۔ پی اے سی نے تمام صوبای محکموں کو ہدایت کی کہ وہ پی اے سی کے لیے ایک خصوصی سیل قائم کریں اور ایک ماہ کے اندر ریکارڈ تیار کرکے پی اے سی کومہیا کریں۔ جو افسران جان بوجھ کر DAC میں پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کمیٹی نے بار بار کی ہدایت کے باوجود ریکارڈ جمع نہ کرانے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ چیئرمین نے سی اینڈ ڈبلیو کے متعلقہ سپرنٹنڈنٹنگ انجینئر زکو 15 دن میں ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ بصورت بصورت دیگر ان سے چارج واپس لیے جایں۔پی اے سی نے اس بات پر زور دیا کہ جھوٹے بیانات اور بہانوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور تمام محکموں کے احتساب کرنے کا عزم کیا۔ کمیٹی نے وزیر اعلی بلوچستان سے اپیل کی کہ صوبہ میں( PD ) پراجیکٹ ڈائریکٹرز کے کلچر کو ختم کیا جائے اس سے ترقیاتی کام سست روی کے شکار ہیں پی ڈی کلچر نے بلوچستان کی ترقی کو پیچھے دکھیل دیا ہے۔ کمیٹی نے ٹیکنیکل افسران کو چارج دینے کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس موقع پر ممبر پی اے سی نوابزادہ زرین مگسی اور غلام دستگیر بادینی نے بھی ترقیاتی منصوبوں کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا۔ غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ حال ہی میں نوشکی کے ایک ترقیاتی منصوبہ کے لیے خاران کے ایک آفیسر کو پروجیکٹ مینیجر متعین کیا گیا ہے جو کہ کسی دیگر محکمہ کا آفیسر ہے انھوں اس بات پر زور دیا کہ جو محکمہ کام کررہا ہے اس ہی محکمہ سے پی ڈی تعینات کیا جائے تاکہ منصوبہ پر بہتر انداز میں کام کیا جائے۔ چیرمین پبلک اکانٹس کمیٹی نے اس بات شدید تشویش کا اظہار کیا کہ لورالائی میڈیکل کالج پروجیکٹ میں محکمہ پی ایچ ای کے انجنیر کو پی ڈی تعینات کیا گیا ہے اور جھالاوان میڈیکل کالج خضدارمیں لوکل گورنمنٹ کے کسی آفیسر کو پی ڈی تعینات کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہ اس سلسلہ میں پی اے سی چیف سیکرٹری صاحب سے بھی گزارش گرینگے کہ اس طرح کے فیصلوں کو روک لیں۔پبلک اکاونٹس کمیٹی عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور کسی بھی مالی بے ضابطگی کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھے گی۔پی اے سی کی دوسری میٹنگ محکمہ صحت کے آڈٹ پیراز کے سلسلہ میں منعقد ہوا۔ لیکن میٹنگ میں سیکرٹری محکمہ صحت کی عدم شرکت کی وجہ سے اور بروقت آڈٹ پیراز کے جوابات نہ دینے و پی اے سی انفارمیشن سسٹم پر اپ لوڈ نہ کرنے کی وجہ سے محکمہ کے تمام پیرازکو ملتوی کیا گیا۔ چیرمین پی اے سی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت کی حکام کی درخواست پر میٹنگ کو ری شیڈول کرنے کے باوجود 22 دن گزرنے کے بعد بھی جوابات جمع نہیں ہوئے۔ مزید برآں، محکمہ نے ری شیڈول میٹنگ میں بھی تیاری کر کے نہیں آیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتا ہے کہ سیکرٹری صحت پی اے سی کے فورم کو کوئی حیثیت نہیں دیتاہے۔ آج کے میٹنگ میں محکمہ صحت کے 3700million تین ہزار سات سو میلین کے آڈٹ پیراز زیر غور آنے تھے۔ جوکہ اس غریب صوبہ کے غریب عوام کے رقم ہیں ان کا جانچ پڑتال کرنا تھا لیکن سیکرٹری صحت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے میٹنگ منعقد نہیں ہورہی۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ سیکرٹری صحت کے خلاف چیف سیکرٹری بلوچستان کو مراسلہ جاری کرینگے اور اس بابت بلوچستان صوبائی اسمبلی میں (پریولیج موشن)تحریک استحقاق بھی پش کرینگے۔کیونکہ متعلقہ سیکرٹری اس فورم میں شرکت کا پابند ہے۔ جس کے بعداجلاس ملتوی کر دیا گیا۔