حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد بنگلہ دیشی طلبا نے سیاسی جماعت بنانے کے لیے کمر کس لی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیر اعظم شیخ حسینہ کو معزول کرنے والے طلبا مظاہرین نے بنگلہ دیش کی 2 اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوری انتخابات کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ انقلاب و اصلاحات کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی سیاسی پارٹی بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حسینہ کی حکومت کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والے طلبا و دیگر مظاہرین کی جدوجہد کے نتیجے میں فارغ ہوگئی تھی۔ تاہم اس دوران کم از کم 300 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے جو بنگلہ دیش میں سنہ 1971 کے بعد تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق محفوظ عالم اس کمیٹٰی کے سربراہ ہیں جو حکومت اور سماجی گروپوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہے طالب علم رہنما ملک میں دو پارٹی نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک سیاسی جماعت بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
26 سالہ قانون کے طالب علم نے رائٹرز کو بتایا کہ اس بات کا حتمی فیصلہ تقریباً ایک ماہ میں فیصلہ کرلیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتجاجی رہنما کسی پلیٹ فارم پر فیصلہ کرنے سے پہلے شہریوں سے وسیع پیمانے پر مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ طلبا کی جانب سے سیاسی جماعت بنانے کے ارادے کا اعلان پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
محفوظ عالم نے کہا کہ لوگ واقعی دونوں سیاسی جماعتوں سے بیزار آچکے ہیں اور وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
حسینہ واجد کی گرانے میں سرگرم اسٹوڈنٹ کوآرڈینیٹر، تہمید چودھری نے کہا کہ اس بات کا قوی امکان ہیں کہ طلبا ایک سیاسی پارٹی بنالیں گے اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مجوزہ پارٹی کی جڑیں سیکولرازم اور آزادی اظہار رائے پر قائم ہوگی۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی کابینہ میں شامل ایک طالبعلم 26 سالہ ناہید اسلام نے کہا کہ تحریک کا مقصد ایک نیا بنگلہ دیش بنانا تھا جہاں کوئی فاشسٹ یا مطلق العنان واپس نہ آسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں یقینی طور پر کچھ وقت لگے گا۔