ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی کارکردگی اور فیوچر پلان سے متعلق گورنر ہاس کوئٹہ میں بریفنگ کے دوران کیا. اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد لہڑی اور پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر بلوچستان ہاشم خان غلزئی بھی موجود تھے . گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیمی ادارے اپنے معروضی حالات اور جدید ضروریات کے مطابق زیادہ سے زیادہ پروفیشنل افراد تیار کریں اور حتی کہ ڈسٹرکٹ سطح پر بھی اپنے میکینکس، تیکنیکی ماہرین اور مشین آپریٹرز رکھنے کیلئے پروگرام ڈیزائن کر کے دیں. گورنر مندوخیل نے کہا کہ صوبے کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے چانسلر کی حیثیت سے میں نے ہدایات جاری کیں کہ ہر متعلقہ وائس چانسلر اپنی ہی یونیورسٹی میں غیرمتعلقہ مضامین اور غیرضروری ڈیپارٹمنٹس کی نشاندہی کریں اور مستقبل قریب کیلئے ہمیں صرف متعلقہ اہم اور مارکیٹ پر مبنی مضامین متعارف کروانے کیلئے اپنا اپنا فیوچر روڈ میپ ترتیب دیں. اس ضمن میں ہر نئے پروگرام کی تاثیر کو یقینی بنانے کیلئے کوالٹی کنٹرول کے اقدامات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں. انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی جانب سے نرسنگ، میڈیکل لیبارٹری، ڈینٹل اینڈ سرجری وغیرہ کے مختلف شعبوں میں پیش کردہ بی ایس پروگرامز کو متعارف کروانا ایک انقلابی اقدام ہے. پہلی میڈیکل یونیورسٹی سے سالانہ تقریبا دو ہزار طبی ماہرین پیدا کرنے کا آئیڈیا بہت نرالہ ہے تاہم اس کے عملی اطلاق اور پھر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے طویل جدوجہد اور بڑی رقم بھی درکار ہیں. گورنر بلوچستان نے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر اور ان کی پوری ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ نئے متعارف کئے گئے. مختلف بی ایس پروگرامز کے صوبے کے مجموعی صحت کے نظام پر بہت مثبت اور تعمیری اثرات مرتب ہونگے. سردست ان پروگراموں میں 30 اگست تک رجسٹریشن اور انٹری ٹیسٹ کی تشہیر بہت ضروری ہے تاکہ خواہش مند امیدوار ان اہم مواقعوں سے محروم نہ رہ جائیں . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ دنیا بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے لہذا پل پل بدلتی دنیا کے ساتھ ہمدم اور ہمقدم رہنے کیلئے ہمیں بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی سطح پر اپنی روایتی طریقہ کار، پرانے نصاب اور افرادی قوت کے استعداد کار میں انقلابی تبدیلی لانی ہوگی . اس مقصد کے حصول کیلئے تمام وائس چانسلر صاحبان کو پابند کر دیا کہ وہ اپنی یونیورسٹی سے متعلقہ اور مارکیٹ ڈیمانڈز سے ہم آہنگ مضامین متعارف کروائیں، غیرضروری مضامین اور غیرمتعلق ڈیپارٹمنٹس کھولنے سے مکمل طور پر اجتناب کریں .
متعلقہ خبریں