بنگلہ دیش میں عام انتخابات ملتوی ہونے جارہے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بنگلہ دیش میں حالیہ طلبہ تحریک کے نتیجے میں ڈیڑھ عشرے سے برسراقتدار شیخ حسینہ واجد کا دھڑن تختہ ہوا تو عمومی تاثر یہی تھا کہ عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد مقررہ مدت کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوگا تاہم اب عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے پہلے اصلاحات اور پھر انتخابات کی بات کی ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس نے عالمی برادری کو بتایا کہ حکومت جمہوری اداروں میں اصلاحات کے بعد آزادانہ، منصفانہ اور شرکت پر مبنی انتخابات کرائے گی۔
پروفیسر یونس نے 60 سے زائد غیر ملکی سفارت کاروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات کی۔
بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں اموات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بھارت چلی گئیں، جس کے بعد نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس نے آٹھ اگست کو پیرس سے ڈھاکہ پہنچنے کے بعد ملک کی نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
محمد یونس نے کیا کہا؟
ڈھاکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ‘دا ڈیلی اسٹار’ کے مطابق محمد یونس نے کہا کہ عبوری حکومت اصلاحات کے ایک سلسلے کے بعد ملک کو نئے انتخابات کے لیے تیار کرے گی۔
انہوں نے کہا، ’جیسے ہی ہم الیکشن کمیشن، عدلیہ، سول انتظامیہ، سکیورٹی فورسز اور میڈیا میں اہم اصلاحات کرنے کا اپنا مینڈیٹ مکمل کر لیں گے، ہم آزادانہ اور منصفانہ شرکت والے انتخابات کا انعقاد کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ، سول انتظامیہ، سیکورٹی فورسز اور ذرائع ابلاغ میں اہم اصلاحات کرنا عبوری حکومت کا مینڈیٹ ہے۔
اس وقت عبوری انتظامیہ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قانون کا نفاذ ہے کیونکہ چھ اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے ایک دن بعد ملک کے ڈیڑھ لاکھ پولیس افسران ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ بہت سے پولیس افسران کو نئی انتظامیہ اور طلبہ تحریک کی طرف سے انتقام اور سزا کا خوف تھا کیونکہ پولیس نے مظاہرے ختم کرنے کے لیے بے رحمانہ قوت استعمال کی تھی۔ ہڑتال پر جانے والے زیادہ تر پولیس اہلکار نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد گذشتہ ہفتے کام پر لوٹ آئے تھے۔
‘حسینہ کی آمریت نے ملک کو تباہ کر دیا’
چیف ایڈوائزر محمد یونس نے کہا،’ میں نے ایک ایسے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے جو کئی لحاظ سے مکمل تباہ تھا۔ اقتدار میں رہنے کے لیے شیخ حسینہ کی آمریت نے ملک کے ہر ادارے کو تباہ کر دیا۔‘
انہوں نے کہا،’عدلیہ کو توڑا گیا۔ ڈیڑھ دہائی کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ذریعے جمہوری حقوق کو دبایا گیا۔ انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کی گئی۔ نوجوانوں کی نسلیں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیے بغیر پروان چڑھیں۔ مکمل سیاسی سرپرستی کے ساتھ بینک لوٹے گئے۔ اور طاقت کا غلط استعمال کرکے ریاستی خزانے کو لوٹا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ نئے دور کا آغاز ہوا ہے، لوگ اپنی سیاسی، مذہبی یا نسلی شناخت سے قطع نظر، اپنی خواہشات کو پورا کر سکیں گے کیونکہ عبوری حکومت جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کو برقرار رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد جاری رکھیں گی جب تک کہ صورتحال یقینی نہ ہو جائے۔ اب اولین ترجیح امن و امان کو جلد از جلد قائم کرنا ہے۔
عالمی برادری سے تعاون کی درخواست
انہوں نے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کا وعدہ کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی۔
انہوں نے کہا،’بنگلہ دیش ایک نئی شروعات کے سنگم پر کھڑا ہے۔ ہمارے بہادر طلباء اور عوام ہماری قوم کی دیرپا تبدیلی کے مستحق ہیں۔ یہ ایک مشکل سفر ہے اور ہمیں راستے میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی امنگوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔‘
نوبل انعام یافتہ نے کہا کہ عوامی بغاوت کے دوران ہونے والی تمام ہلاکتوں کے لیے انصاف اور احتساب کو یقینی بنانا ایک اور ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقلابی طلباء چاہتے ہیں کہ ہم بامعنی اور گہری اصلاحات کریں، جو ملک کو ایک حقیقی اور فروغ پزیر جمہوریت میں بدل دے گی۔ یہ کام بہت بڑا ہے، لیکن تمام لوگوں اور عالمی برادری کے تعاون سے ممکن ہے۔
محمد یونس کا کہنا تھا، ’مجھے کامیاب ہونا چاہئے، ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔‘
انہوں نے بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قانون کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی، علاقائی اور دو طرفہ معاہدوں کی پاسداری کا وعدہ کیا۔