طلبا کے لیے اسکول میں موبائل فون کتنا کارآمد ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی ریاست ورجینیا میں اسکولوں میں طلبا پر سیل فون کے استعمال پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے، جس پر والدین اور ماہرین کا ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
ورجینیا کے گورنر گلین ینگ کن کی گائیڈ لائنز کے تحت ایلیمنٹری، مڈل اور ہائی اسکول کے طلبا تدریسی اوقات میں اپنے سیل فون اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے، اور طلبا کو اگر والدین سے رابطہ کرنا ہوتو وہ صرف اسکولز کے نمبرز سے ہی والدین سے رابطہ کرسکیں گے۔
طلبا پر اس پابندی کے حوالے سے والدین کی اکثریت نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ورجنینا میں مقیم تحسین حمید کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا ایک حیران کن اور پریشان کن بات لگتی ہے۔
’میں خود بھی تدریس سے منسلک رہی، اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ فون کے بے جا استعمال سے طالبعلموں کی توجہ سبق سے ہٹ جاتی ہے، لیکن ماں ہونے کے ناطے میرا خیال ہے کہ ایمرجنسی میں والدین کا بچوں سے رابطہ نہ ہونا بہت بڑی تشویش کا باعث ہوتا ہے۔‘
دوران تدریس طالبعلموں پر فون کے استعمال کے مخالف کہتے ہیں کہ امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے جہاں بچوں کو شروع ہی سے کلاس روم میں ڈیجیٹل ڈیوائسز دی جاتی ہیں جس سے مستفید ہوکر وہ ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال کو سیکھتے ہیں مگر ایسے میں فون کلاس روم میں محض خلل پیدا کرکے اور ڈسپلن خراب کرکے اساتذہ اور طالب علموں کی توجہ ہٹاتے ہیں۔
والدین سے ہٹ کر طلبا بھی موبائل فون کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں، فیئرفیکس کاونٹی مڈل اسکول کی طالبہ ایمان حسین کہتی ہیں کہ ہر بچے کے پاس لیپ ٹاپ کمپیوٹر ہے، اسمارٹ فون سبق سے توجہ ہٹاتے ہیں۔
’ایمر جنسی کی صورت میں طالب علم با آسانی اسکول میں دفتر سے والدین سے بات کر سکتے ہیں۔‘
امریکی اسکول عام طور پر پہلی کلاس سے ہی ہر بچے کو آئی پیڈ دیتے ہیں جبکہ تیسری کلاس کے بعد اسکول ہر بچے کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر جاری کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر تحقیق کرنے والے ادارے ’کامن سینس ایجوکیشن‘ کے مطابق 11 اور 17 سال کے درمیان کی عمر کے طالب علم ایک دن میں اوسطاً 51 بار اپنے فون کو چیک کرتے ہیں، اسکولوں میں تدریسی اوقات کے دوران بھی عام طورپر طالب علم اپنے فون چیک کرتے ہیں کہ کوئی مسیج تو نہیں آیا۔
تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلل اور نظم وضبط کے لیے سیل فون یا اسمارٹ فون پر مکمل پابندی کوئی مناسب حل نہیں ہے، طالب علم اسمارٹ فون پر موجود ’موبائل فرینڈلی ایپس‘ استعمال کرکے اسکول کے کام کو بہتر طریقے سے مکمل کرسکتے ہیں۔
کامن سینسن ایجوکیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی جگہیں جہاں طالب علموں کے پاس کمپیوٹر نہ ہو اور انہیں صرف اسمارٹ فون تک رسائی حاصل ہو، وہاں اسمارٹ فون طالب علموں کو یکساں رسائی دینے کا اہم ذریعہ ہیں اور اس طرح اسمارٹ فون ڈیجیٹل مساوات قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
’تدریسی اوقات میں موبائل فون پر پابندی جدید ٹیکنالوجی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے‘
ماہر نفسیات پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر شائستہ حمید اشائی کے مطابق موبائل فون زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے، اسمارٹ فون روز مرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں، لہذا ان پر پابندی لگانا ٹیکنالوجی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے،جدید طرز زندگی میں ٹیکنالوجی کی تعلیم اور دوسرے شعبوں میں سہولتکاری کے علاوہ اور بھی بہت سے اہم پہلو ہیں۔
انہون نے کہا کہ اسمارٹ فون رابطے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے طالبعلموں کو تحفظ کا احساس دلاتے ہیں، اور ڈیجیٹل آلے کی حیثیت سے یہ افراد کو بااختیار بھی بناتا ہے۔
موبائل فون کے منفی پہلو بھی ہیں
ڈاکٹر شائستہ اشائی کہتی ہیں کہ اسمارٹ فون پر انٹرنیٹ کے ذریعے جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی طرف سے خطرات جیسے منفی پہلو بھی ہیں جن پر نظر رکھنا اسکول، والدین، حکومت اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
پاکستان کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشائی کہتی ہیں کہ پاکستان کے اسکولوں میں امریکا جیسی ڈیجیٹل سہولیات میسر نہیں ہیں، ایسے میں اسمارٹ فون اور بھی اہم ہیں۔
’طالب علم دنیا بھر سے جدید تحقیق اور قابل بھروسہ معلومات حاصل کرکے اپنی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں اور تعلیمی معیار کو بلند کر سکتے ہیں، تعلیمی شعبہ کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبہ میں واپس لوٹنا کوئی آپشن نہیں ہے، یہ واضح ہے کہ تعلیمی اداروں میں تمام ڈیجیٹل ڈیوائسز کے لیے ٹیکنالوجی فار لرننگ کا اصول نافذ ہونا چاہیے۔‘
سیل فون یا اسمارٹ فون کے اسکول اور کلاس روم میں استعمال کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی
امریکا کے ماہر تعلیم میلکم ڈیوس کہتے ہیں سیل فون یا اسمارٹ فون کے اسکول اور کلاس روم میں استعمال کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں، سیل فون یقیناً ایک تعلیمی ذریعہ ہے جسے طالب علم اپنی اپنی سطح پر تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسکول کا کام مکمل اور بہتر انداز میں کرنے میں مختلف ایپس کے ذریعہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اس ٹیکنالوجی کا کلاس روم میں بلا ضرورت استعمال طالب علموں کی کارکردگی کو خراب کرتا ہے۔
’اس کے علاوہ وہ اس کی وجہ سے کچھ طالب علموں میں نقل کرنے، اور سائبر ہرا سانی جیسے مسائل کی بھی نشاندہی کرتے ہیں، کسی تعلیمی ادارے کو سیل فون کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ایک متوازن سوچ اختیار کرنی ہوگی جو اس کی استعمال کی افادیت اور دوران کلاس خلل اندازی کی روک تھام میں ایک توازن قائم کرے۔‘
کامن سینس ایجوکیشن نے تجویز کیا ہے کہ اسکولوں کو طالب علموں کو ان اپیس کے استعمال کی اجازت دینی چاہیے جو تعلیم کے حصول کو آسان بنائیں اور ان ایپس پر پابندی لگائیں جو خلل کا باعث بنتے ہوں۔