ارباب اختیار بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتے، نواب اکبر بگٹی کا مشن بلوچ بیٹیاں آگے بڑھا رہی ہیں، نوابزادہ جمیل بگٹی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)شہید نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ میرے والد نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جو تحریک اپنی زندگی میں شروع کی تھی آج ان کی 18 ویں برسی تک وہ تحریک صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں بسنے والے بلوچوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے یہی ان کا مقصد تھا پارلیمانی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو نواب اکبر بگٹی کے مشن کو آگے بڑھاتاجبکہ بلوچستان کی بیٹیوں نے اس مقصد کے لئے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے میدان میں آگے بڑھ رہی ہےں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ بگٹی بولک میاں غنڈی میں سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ شہید نواب اکبر بگٹی کی آج 18 وی برسی منائی جارہی ہے انہوں نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کے حصول کے لئے اپنی زندگی میں جو جدوجہد شروع کی تھی وہ آج ایک توانا تحریک کی صورت میں بلوچستان بھر میں اور صوبہ پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں بسنے والے بلوچوں تک پھیل چکی ہے اور ہماری بچیاں آج اس تحریک کو آگے بڑھارہی ہےں انہوں نے بتایا کہ مارچ 2005ءمیں میرے والد پر حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے جبکہ 26 اگست 2006ءکو حملے میں انہیں شہید کردیا گیا جبکہ ان کا مشن آج بھی تواتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ان کی موت کے بعد سے پیدا ہونے والی افرا تفری 18 سال بعد بھی جاری ہے انہوں نے بتایا کہ بلوچ قوم کو روز اول سے ہی ملک کے لئے مخلص اور محب وطن نہیں سمجھا گیا بلکہ انہیں ہمیشہ تشدد کا نشانہ بنانے اور مارنے کا عمل جاری رہا کیونکہ ملک کے اصل حکمران بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتے اس لئے وہ سیاسی جماعتوں اور ان کے ایسے لوگوں کا چناﺅ کرتے ہیں جو ان کے اشاروں پر چلےں کیونکہ بلوچستان میں لیڈر شپ کی کمی ہے جس کا ہمیشہ ارباب اختیار نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو احتجاج کرنے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز اٹھانے کا حق نہیں جس طرح ہماری خواتین اور بچیوں پر تشدد کیا گیا اور ان کا راستہ روکا گیا وہ دنیا نے دیکھا ہے ہمارے نوجوانوں پر تشدد کیا جاتا اور ان کی مسخ شدہ نعشیں پھینکی جاتی ہےں اس طرح کے عمل نفرتوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے کہ آزادی کی خواہش رکھنے والے دو گروپ ہوتے ہیں ایک مسلح جدوجہد کرتے ہیں اور دوسری جس طرح ہماری بچیاں پر امن اپنے پیاروں کی بازیابی اور حقوق کے حصول کیلئے سرگرداں ہےں۔ کیونکہ جن کے پاس ملک کا اختیار ہے وہ پر امن جدوجہد اور احتجاج کا حق چھین کر انہیں مسلح جدوجہد کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بلوچوں کو ختم کرنے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف آپریشن ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں بلوچوں اور پشتونوں کے خلاف ایک جیسا رویہ اپنایا جارہا ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین کیلئے جو پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا وہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔ ڈیرہ بگٹی سے حالات کی خرابی کے باعث نکلنے والے بگٹی آج سندھ کے مختلف علاقوں میں سڑکوں پر اور دیگر مقامات پر محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں اور مجھ سمیت دیگر بگٹیوں پر آج بھی ڈیرہ بگٹی جانے پر پابندی عائد ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ شہید نواب اکبر بگٹی ساڑھے 8 سال جیل کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اس وقت میری عمر 10 سال تھی بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے انہوں نے کہا کہ اس کے لئے دو حل ہیں ایک ریفرنڈم کرایا جائے اور دوسرا پنجاب کے علاقوں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، کندھ کوٹ، کشمور، جیکب آباد کو بلوچستان میں شامل کرکے گوادر تک ایک صوبہ بنایا جائے اور پشتون علاقوںپر مشتمل پشتونوں کا صوبہ بنایا جائے اور بلوچستان کے لوگ جس کے ساتھ رہنا چاہئےں اس کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے یہ بہترین طریقہ کار ہے شہید نواب اکبر بگٹی مشاہد حسین سید اور چوہدری شجاعت پر مشتمل کمیٹی حتمی ڈرافٹ پر نہیں پہنچی تھی یہ مفروضوں پر مبنی بات ہے نہ ہی ایک نقطہ پر متفق ہوئے تھے شہید نواب اکبر بگٹی نے آنے والی دونوں شخصیات کو کہا تھاکہ آپ کے پاس کوئی مینڈیٹ یا اختیار نہیں تو آپ اپنا اور میرا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے پاس مسائل کے حل کا کوئی اختیار نہیں اصل اختیار اختیار داروں کے پاس ہے جو مسائل کا حل نہیں چاہتے۔