شورش کو اکثر مقامی افراد کی ہمدردی حاصل ہوتی ہے اور لوگ اس کے مقاصد کی بھی اکثر حمایت کرتے ہیں . ‘احسان غنی کے مطابق شورش سے دہشتگردی کی طرح نمٹنا درست نہیں، ’یہ طریقے اکثر بیک فائر کر جاتے ہیں . ‘انھوں نے گذشتہ دنوں پنجاب کے علاقے ماچھکہ میں کچّے کے ڈاکوؤں کے حملے میں 12 پولیس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کچّے کا علاقہ آپ سے سنبھالا نہیں جا رہا اور آپ پورے صوبے میں آپریشن کی بات کر رہے ہیں . ‘وہ مزید کہتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں موجود مسلح تنظیموں کے ٹھکانے بھی کچّے کے علاقے میں موجود ہیں . احسان غنی کا کہنا ہے کہ ’یہ مسئلہ فوجی آپریشن سے نہیں حل ہو گا بلکہ بات چیت سے ہو گا؟ لیکن یہاں یہ سوال اہم ہے کہ بات کس سے کی جائے؟ پُرانے لوگ سائیڈ ہر ہو گئے ہیں اور اب علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت نئی اور مختلف ہے . ‘’ان سے پارلیمنٹ کے ذریعے بات کریں تاکہ ان کا بھی اس نظام پر کچھ اعتماد بڑھے . ‘ . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال اور شدت پسندوں کے حملوں کے حوالے سےنیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے سابق کوآرڈینیٹر احسان غنی کاکہنا ہےکہ ’کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو مسئلے کا علم ہونا چاہیے . ‘’شورش اور دہشتگردی میں فرق ہے .
متعلقہ خبریں