نوکنڈی میں پاک افغان سرحد کو مستقل بند کردیا گیا، گاڑیوں کو ڈک بازار نہ جانے کی ہدایت
نوکنڈی(قدرت روزنامہ)نوکنڈی میں گزشتہ روز فرنٹیئر کور تفتان رائفلز اور سیاسی و قبائلی عمائدین کے درمیان ایک اجلاس میں نوکنڈی سے پاک افغان سرحد (ڈک ) کو بند کرنے کا معاملا زیر غور آیا ہے اس اجلاس میں پیرا ملٹری فورس کی جانب سے کہا گیا کہ گاڑیاں افغان بارڈر بالخصوص ڈک پر نہ جائیں کیونکہ سرحد مستقل طور پر بند کیا جارہا ہے اس اجلاس میں ایم پی اے چاغی صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی اعجاز سنجرانی سمیت نوکنڈی کے کئی ایسے افراد بھی شریک تھے جو پاک افغان سرحد پر ٹرانسپورٹیشن کا کام کرتے ہیں۔ اجلاس میں شریک ایک شخص نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے وہاں جانے والے تقریبا تمام مہمان شرکا کے موبائل فونز لے کر انھیں اجلاس میں شرکت کی اجازت دی۔ متعدد ذرائع نے یہ تصدیق کی کہ بہت سارے شرکا بھی بارڈر بند کرنے کی رائے سے بظاہر متفق نظر آئے تاہم چند ایک نے اس فیصلے کی وہاں بھی مخالفت کی۔ جبکہ ایف سی حکام نے واضح کیا کہ آئندہ کوئی گاڑی وہاں نظر آئی تو اس کو ضبط کرکے کسٹم کے حوالے کیا جائے گا۔خیال رہیں کہ ڈک بازار نوکنڈی سے متصل وہ گزرگاہ ہے جہاں سے زامیاد گاڑیوں کے ذریعے روزانہ مختلف قسم کے اشیا بالخصوص کی ترسیل ہوتی ہے جسے سرکاری حکام اسمگلنگ جبکہ مقامی لوگ سرحدی تجارت کا نام دیتے ہیں۔ ڈک بازار ایک ایسے مقام پر افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے جسے پاکستانی حکام اپنے ملک کا حدود تصور کرتے ہیں۔ اس تنازعے کو حل کرنے کی کئی کوششیں بےسود ثابت ہوئی ہیں۔نوکنڈی میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بعد ایک لسٹ گردش کررہی ہے جس میں ان گاڑیوں کی تفصیلات درج ہیں جنہیں ایف سی نے ڈک بازار جاتے یا واپس آتے ہوئے تحویل میں لیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ایف سی ان گاڑیوں کو واپس مالکان یا متعلقہ ڈرائیور کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل سب کو بلاکر سرحد کی بندش اور اس سلسلے میں ہونے والی سختی سے متنبہ کی۔ خیال رہے کہ ماضی قریب ڈک بازار جانے سے زامیاد گاڑیوں کو روکنے کے لیے کئی ڈرائیورز کے پاں جلائے گئے جن کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تاہم یہ سلسلہ نہیں رکا۔پاک افغان سرحد کی بندش کی خبر سنتے ہی مقامی افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا (وٹس ایپ گروپس) میں مقامی لوگوں نے ردعمل دیتے ہوئے سرحد کی بندش کے فیصلے پر تنقید کی اور یہ سوال دہرایا کہ جب ڈک بازار بند کی جائے گی تو سرحدی تجارت سے وابستہ ہزاروں لوگ کہاں جائیں گے کیا کریں گے؟ حکام کے پاس مجموعی طور اس سوال کا کوئی جواب نہیں البتہ وہ سمجھتے ہیں کہ چاغی میں چلنے والے میگا پراجیکٹس میں روزگار کے مواقع سے اس مسئلے کو ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مقامی افراد اس منطق سے قطعی طور پر متفق نہیں ہیں۔ اعلی تعلیم، ہنر اور روزگار کے دیگر ذرائع سے محروم ضلع چاغی کے زیادہ تر افراد افغان اور ایران سرحد پر انحصار کرتے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ حکام کی جانب سے سرحد بند کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے قبل بھی ایسے کئی فیصلے کیئے گئے جس کا کسی حد تک اثر ضرور پڑا لیکن سرحد مکمل طور پر بند نہیں کی جاسکی۔