کملا ہیرس غیرقانونی تارکین وطن کے معاملے پر اپنے پرانے مؤقف سے پیچھےہٹ گئیں


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی صدارتی اُمیدوار کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ پچھلے 5 سال کے دوران فریکنگ اور سرحدی سکیورٹی جیسے کئی اہم معاملات میں اُن کے مؤقف میں ارتقائی تبدیلی آئی ہے لیکن اُن کی اقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اپنے نائب صدراتی امیدوار ٹِم والز کے ساتھ پہلے مشترکہ انٹرویو میں بات چیت کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی اُمیدوار کملا ہیرس نے واضح کیا کہ وہ اب بھی ماحولیاتی تحفظ میں سنجیدہ ہیں اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کا فروغ جاری رکھیں گی۔
2019 کی صدارتی مہم میں کملا ہیرس نے ماحولیات کی وجہ سے قدرتی گیس کے حصول کیلئے فریکنگ کی مخالفت کی تھی لیکن اب وہ اِس کی حمایت کرتی ہیں کیونکہ فریکنگ کی صنعت بہت زیادہ لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے۔
غزہ جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ غزہ میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مارے جا رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی نہیں روکیں گی، غزہ میں جنگ بندی کیلئے قیدیوں کے تبادلے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کملا ہیرس نے صاف کہا کہ وہ سابق صدر بارک اوباما کی قائم کردہ روایت برقرار رکھتے ہوئے اپنی کابینہ میں ری پبلکن پارٹی کے فرد کو شامل کریں گی کیونکہ وہ ہمیشہ سے مختلف آراء کی حوصلہ افزائی کرتی آئی ہیں۔
انٹرویو میں اُنہوں نے اپنے حریف اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی نسلی سیاست پر بات کرنے سے گُریز کیا۔
ٹرمپ نے پچھلے مہینے شکاگو میں سیاہ فام صحافیوں کی کانفرنس میں کہا تھا کہ کملا ہیرس پہلے خود کو جنوبی ایشیائی کہتی تھیں اور اب سیاست کیلئے سیاہ فام بن گئی ہیں۔
سرحدی سکیورٹی کے مسئلے پر کملا ہیرس نے ٹرمپ کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کے ارکانِ کانگریس نے مل کر بارڈر سکیورٹی بل تیار کیا تھا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے اُسے مسترد کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اگر صدر منتخب ہوئیں تو اُس قانون کو یقینی بنائیں گی تاکہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر 1500 اضافی سکیورٹی ایجنٹس تعینات کیے جا سکیں۔
2019 کے اپنے ایک اور مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ اب وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کو سزا دیے بغیر چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں کملا ہیرس کے اِس انٹرویو میں پختگی دکھائی دی لیکن پالیسی معاملات کی باریکیوں کے بارے میں اُن کے جواب غیر واضح تھے۔