پاکستان:عام انتخابات میں صرف 6فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے

مطیع اللہ مطیع

گیلپ سروے آف پاکستان نے اپنے رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ ملک بھر میںعام انتخابات میں صرف 6فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کیلئے صرف 3فیصد خواتین جبکہ 97فیصد مرد امیدوار تھے ۔ ثناء درانی بلوچستان کے ان خواتین میں سے ہے جنہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی سے حلقہ پی بی 43کی ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا تھا تاہم ان کی جگہ ٹکٹ موجودہ رکن اسمبلی عبدالصمد گورگیج کو دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان سے سال 2023 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی 51نشستوں پر44خواتین امیدواروں نے حصہ لیا جس میں 26خواتین نے آزادحیثیت جبکہ بی این پی (عوامی)نے 3،نیشنل پارٹی نے 3،جماعت اسلامی نے 2،بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2،پیپلزپارٹی نے 2،پاکستان مسلم لیگ(ن)،جمہوری وطن پارٹی ،بلوچستان عوامی پارٹی،تحریک لبیک پاکستان،تحریک جوانان پاکستان،جاموٹ قومی موومنٹ نے ایک خاتون کو ٹکٹ جاری کیا۔جنہیں کل 23ہزار436ووٹ ملا ۔

قومی اسمبلی کی 16نشستوں پر 19خواتین امیدواروں میں سے 9خواتین نے آزاد ،بلوچستان عوامی پارٹی نے 3،نیشنل پارٹی کی طرف سے 2، عوامی نیشنل پارٹی ،مجلس وحدت المسلمین ،جاموٹ قومی موومنٹ،جماعت اسلامی ،پشتونخواملی عوامی پارٹی نے ایک ،ایک خاتون امیدوار کو ٹکٹ دیاجنہیں عام انتخابات میں کل 12ہزار641ووٹ ملے ۔ ثناء درانی کہتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی خواتین امیدواروں پر اعتماد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ٹکٹ کی تقسیم میں خواتین سے زیادہ مردوں پر توجہ دی جاتی ہے ۔ اگر عام انتخابات 2018اور 2023 کا موازنہ کیاجائے تو2023 کے انتخابات میں 26زائد خواتین امیدوار میدان میں اتری تھی لیکن ووٹ حاصل کرنے کی شرح 2018 میں زیادہ تھی ۔عورت فائونڈیشن کے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق خواتین کو ان کے رہائشی علاقوں سے دور کمزور حلقوں پر ٹکٹ جاری کیاجاتاہے جہاں ان کیلئے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوتاہے ۔علائو الدین خلجی کہتے ہیں کہ خواتین کی نمائندگی کوموثر بنانے کیلئے”خاتون امیدواروں کے نصف انتخابی اخراجات سیاسی جماعتیں برداشت کریں۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان سے قومی وصوبائی اسمبلی کے جنرل نشستوں پر سال 2018 میں 37خواتین نے الیکشن لڑا تھا جن میں سے 24سیاسی جماعتوں کی نامزد اور 13خواتین نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا سال 2018 میں خواتین کوقومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی پر کل 84ہزار105ووٹ ملے جس میں قومی اسمبلی پرکل 52 ہزار 666 ووٹ جبکہ صوبائی اسمبلی پر31 ہزار 439 ووٹ ڈالے گئے تھے ۔

صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے تعلیم اور معاشی خود مختاری کے ساتھ خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانا سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے جس کے لیے پاکستان میں بھی کچھ اقدامات کیے گئے۔ اسمبلیوں میں خواتین کی17 فیصد نامزدگی اور جنرل نشستوں پر پانچ فیصد کوٹا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ مگر کوششوں کے باوجود پیشرفت کی رفتار بہت سست ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سال 2023 میں الیکشن کمیشن کے ساتھ بلوچستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد54لاکھ 50ہزار572 میں 23لاکھ 93ہزار797خواتین ووٹرز تھی ۔اسی طرح2018 میں بلوچستان میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 18 لاکھ 13ہزار 562 تھی۔ اس وقت ان میں سے صرف سات لاکھ 14ہزار 914 خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا جو رجسٹرد خواتین ووٹرز کا 37.64 فیصد بنتا ہے۔ عورت فائونڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علا ئو الدین خلجی کا ماننا ہے کہ ویمن امپاورمنٹ کے لیے انتخابی قوانین کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ جنرل نشست پر خواتین کا کم از کم ٹرن آئوٹ 30 فیصد لازم قرار دیا جائے۔ اسی طرح تمام اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ 17 سے بڑھا کر 33 فیصد کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ عام نشستوں پر کم از کم 15 فیصد ٹکٹس خاتون امیدواروں کو جاری کریں۔ “خاتون امیدواروں کے نصف انتخابی اخراجات سیاسی جماعتیں برداشت کریں۔ انتخابی منصوبہ بندی، ووٹرز اور پولنگ کی تربیت کے لیے مقامی سطح پر مکمل حمایت کو یقینی بنائیں۔ اسی طرح خواتین امیدواروں کے لیے سکیورٹی ڈیپازٹ بھی کم کیا جائے۔” علا ئوالدین خلجی بتاتے ہیں کی ان کی تنظیم نے ‘جذبہ پروگرام’ کے تحت ملک بھر کے 25اضلاع میں کام کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد خواتین کے شناختی کارڈ بنوا کر ان کے ووٹ کی رجسٹریشن کرائی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار بھی انتخابات میں حصہ لے رہی تھی وہ کہتی ہے کہ جب کوئی خاتون الیکشن میں کھڑی ہوتی ہے تو کہاجاتاہے کہ یہ صرف فارملیٹی پوری کررہی ہے معاشرے میں مزید مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ کے وکیل ومعروف قانون دان محمد قاسم مندوخیل ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ الیکشن سے متعلق قانون میں کوئی ابہام نہیں”قانون میں واضح طور پر قومی اسمبلی’ اور’ صوبائی اسمبلیوں’ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی پانچ فیصد خواتین امیدواروں کو قومی اور پانچ فیصد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کا اجرا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے چاروں صوبوں میں اپنے ٹکٹ ہولڈروں کا پانچ فیصد شئیر خواتین کے لیے مخصوص کرنا ضروری ہے”۔ قاسم مندوخیل سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی کل16نشستیں ہیں اس لئے ایسی جماعتیں جو صرف بلوچستان کی حد تک محدود ہیں ان کیلئے خواتین کی کم سے کم پانچ فیصد نمائندگی کی شرط پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ 16 فیصد کا پانچ فیصد اعشاریہ آٹھ بنتا ہے۔ قومی سطح کی دیگر جماعتوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے”۔ الیکشن کمیشن کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نادرا کے تعاون سے موبائل وینز کے ذریعے سینکڑوںخواتین کے شناختی کارڈز بنوائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں بالخصوص تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم بھی چلائی گئی لیکن خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آگاہی سیشن کے دوران تعلیم یافتہ جوان لڑکیوں سے شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے “گھر والے کہتے ہیں کہ آپ شادی کے بعد شوہر کے نام سے شناختی کارڈ بنوا لینا۔” ان کا کہنا تھا کہ کہ خواتین کے ٹرن آئوٹ میں بہتری کے لیے ایک تو والدین کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے، سیاسی جماعتیں خواتین کو پولنگ سٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کریں۔ البتہ پولنگ سٹیشنز اور خواتین عملے کی تعیناتی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔قبائلی صوبے میںقوم سیاسی جماعتوں کاہولڈ زیادہ موثر ہے ان جماعتوں کو اپنے طورپر لوگوں کو خواتین کے ووٹ ڈالنے کیلئے قائل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ثناء درانی کہتی ہے کہ بدقسمتی سے جب بھی ہم انتخابی مہم کے دوران بینرز آویزاں کرتے تھے تو مخالفین وہ بینرز پھاڑ دیتے تھے ۔سیاسی طورپرمقابلے کی بجائے مختلف حربے استعمال کئے جاتے رہے ۔الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ۔خواتین کو بدامنی کے واقعات کی وجہ سے انتخابی مہم چلانا کافی مشکل تھا۔ بلوچستان قبائلی معاشرہ جہاں خواتین کو مرضی سے ووٹ دینے کا اختیار نہیں۔ گھر کا مرد جس کو کہے گا اسی کو ووٹ ڈال دیں گی۔”لیکن ترقی کیلئے ضروری ہے کہ عوام باہرنکلیں اور خاص کر آدھی آبادی جو خواتین کی ہے انہیں اپنے لئے نکل آناچاہیے ۔ پاکستان کے قومی سطح پر بننے والی انتخابی قوانین (الیکشن ایکٹ2017)الیکشن کمیشن کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر ملک یا صوبے کے کسی قومی یا صوبی حلقے میں خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم کاسٹ ہوں تو وہ اس حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دے سکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین کو حق رائے دہی سے روکنے کے لیے کہیں کسی طرح کا معاہدہ ہوتا ہے یا ووٹ کے استعمال میں طاقت کے ذریعے خلل ڈالا جاتا ہے تو تب بھی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کہتا ہے کہ “پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مجلس شوری (پارلیمنٹ)بشمول صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے جنرل نشستوں پر کم از کم پانچ فیصد امیدوار خواتین میں سے منتخب کیے جائیں گے”۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)سمیت دیگر 10 سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو نوٹس جاری کر دیاتھا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)سمیت پارٹیوں نے اپنی پارٹی کے 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو مختص کرنے میں ناکام رہی تھی واضح رہے کہ خواتین کو 5 فیصد عام نشستوں کا ٹکٹ دینا ایک قانونی شرط ہے، اور اگر سیاسی جماعتیں اسے پورا نہیں کرتیں تو انہیں انتخابی نشان نہیں دیا جا سکتا، اور سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ حالیہ عام انتخابات 2024 میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی خلاف ورزی پر عورت فانڈیشن کی جانب سے کیے گئے ایک تجزیے کے مدنظر جو کہ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کی روشنی میں کیا گیا تھا کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کئی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی تعمیل نہیں کی تھی۔ جس کے مطابق عام انتخابات 2024 میں ہر صوبائی اور قومی اسمبلی میں خواتین کو کم از کم پانچ فیصد جنرل نشستوں کے ٹکٹ دیئے جانا ایک قانونی تقاضا تھا۔