’سارا پھل ایک ٹوکری میں ڈال دیا‘ شیخ حسینہ واجد بھارت کے لیے درد سر بن گئیں


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بنگلہ دیش میں طلبا کی قیادت میں انقلاب کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہونے کے 4 ہفتوں بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معذول بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بھارت کے لیے سفارتی دردِ سر بن گئی ہیں۔
بنگلہ دیش میں طلبا مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت شیخ حسینہ واجد واپس بنگلہ دیش کے حوالے کرے تاکہ ان پر طلبا کے احتجاج کے دوران مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت جب بھارت خطے میں چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی دوڑ میں شامل ہے وہاں بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے مطالبات پر 76 سالہ شیخ حسینہ واجد کو واپس اپنے ملک بھیجنے سے جنوبی ایشیا میں اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو بری طرح نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
تنازعات کے حل کے لیے کام کرنے والے تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سربراہ تھامس کین کا کہنا ہے کہ ’بھارت واضح طور پر شیخ حسینہ واجد کو واپس بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا‘۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کو واپس بنگلہ دیش کے حوالے کرنے سے بھارت کے دیگر چاہنے والے دوست ممالک کے سربرہان کو جو پیغام جائے گا وہ یہ ہو گا کہ بھارت مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دینا والا نہیں نہ ہی آپ کی حفاظت کر سکتا ہے، اس سے بھارت کی پوزیشن ہمسایہ ممالک میں کمزور ہو جائے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ گزشتہ سال مالدیپ میں اس کے پسندیدہ صدارتی امیدوار کو ایک ایسے حریف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا جھکاؤ اور ہمدردیاں چین کی جانب تھیں۔
تھنک ٹینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے تختہ الٹنے سے بھارت خطے میں اپنا قریبی اتحادی کھو چکا ہے، کیونکہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد حکومت کی زیادتیوں سے متاثرہ بنگلہ دیش کے عوام اور موجودہ حکومت بھارت کے کھلے عام مخالف ہو گئے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ دشمنی ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی میگا فون ڈپلومیسی کے ذریعے ختم ہو گئی ہے اور اس کا رخ بنگلہ دیش کی نگراں انتظامیہ کی طرف ہو گیا ہے جس میں نریندر مودی نے 84 سالہ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں حسینہ واجد کی جگہ لینے والی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوسری جانب نریندر مودی نے نے ہندو عقیدے کی حمایت کو اپنے دور کا ایک اہم جزو بنایا ہے، نے یونس کی انتظامیہ پر بار بار زور دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی ہندو مذہبی اقلیت کو تحفظ فراہم کرے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ایک سرکردہ رہنما فخرالاسلام عالمگیر نے کہا کہ بھارت نے حسینہ واجد کی حمایت کرکے اپنا سارا پھل ایک ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔
حسینہ واجد کے دور میں گرفتار کیے گئے بی این پی کے ہزاروں ارکان میں سے ایک عالمگیر نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اپنے مفادات کی قیمت پر نہیں۔ بدقسمتی سے بھارت کا رویہ اعتماد پیدا کرنے کے لیے سازگار نہیں ہے۔
عدم اعتماد کا ماحول ایسا ہے کہ جب اگست میں دونوں ممالک میں بدترین سیلاب آیا تو کچھ بنگلہ دیشیوں نے اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا۔