بلوچستان کے مسئلے کا حل بندوق یا بارود نہیں، سیاسی ہے، حافظ حمداللہ
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ26 اگست کو جو کچھ ہوا بلوچستان میں تقریبا گھنٹوں گھنٹوں بلوچستان چاروں طرف سے حصار میں تھا اور مختلف اضلاع اور مختلف ڈسٹرکٹ میں لاشیں گر رہی تھی اور حکومت اور ریاست کے کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی اور یقینا دردناک واقعات بھی تھے افسوسناک بھی تھا اور جمعیت علما اسلام نے برملا ہے تشدد کی سیاست کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور یہ جمعیت علما اسلام خود بھی اس قسم کی سیاست کا نشانہ بنی رہی ہے مولانا فضل الرحمن صاحب اور پارٹی کی دیگر قیادت پر دھماکے ہوئے ہیں شہید کیے گئے ہیں ہمارے درجنوں سینکڑوں کارکن شہید ہوئے لیکن دہشت گردی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے خواہ وہ خیبر پختون خواہ میں ہو فاٹا میں ہو حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اب جہاں تک بلوچستان کی بات ہے کہ بلوچستان میں اس قسم کی اندوہوناک اور افسوسناک واقعات کیوں ہوتے ہیں یہ بندوق کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے بندوق اٹھا کر لوگ پہاڑوں پہ چلے گئے ہیں اب میرے خیال میں 48 اور 49 سے لے کر اپ تک بلوچستان میں کتنے اپریشنز ہوئے ہیں لہذا یہ ایک تسلسل ہے اور اس تسلسل کو اس سمندر کو کوزے میں بند کرنا پڑھایا ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہرئے کیا وفاق سے وزیراعظم کوئٹہ آئے اور اس کے سات وفاقی وزیر داخلہ بھی تھے انہوں نے کہا کہ جو ائین کو نہیں مانتے اس کو ہم معاف نہیں کریں گے جو ائین کو مانتے ہیں بے شک وہ ہمارے شہری ہے ہمارے بھائی ہے پاکستانی ہے وزیراعظم کا یہ سٹیٹمنٹ ہے لیکن سوال یہ ہے نواب اکبر خان بگٹی تو ائین کو مان رہے تھے نواب اکبر خان بکٹی یہ ائین سے وفاداری کا حلف لیا تھا ان کے چار ایم پی ایز جب نواب بگٹی کے خلاف آپریشن شروع کر اور پھر ان کو نشانہ بنایا گیا چار ایم پی ایز بلوچستان اسمبلی میں تھے باقاعدہ پاکستان کی ائین پر ان کو یقین تھا پارلیمنٹ پر یقین تھا جمہوریت پر یقین تھا اور پاکستان کو بھی تسلیم کرتے رہے کہیں بھی اور انہوں نے کسی ہسپتال کو دھماکے سے اڑایا نہ کسی سکول کو نہ پاکستان کے ایجنڈے کو جلایا ہے نہ پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا نواب اکبر ممکن ہے وہ تو ائین کو بھی مان رہے پارلیمنٹ کو بھی تسلیم کرتے رہے اور باقاعدہ ان کے لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے تھے پھر ان کو کیوں نشانہ بنایا گیا وہ تو ائی ایمان رہا تھا پھر کس چیز کی سزا ملی لہذا یہ باتیں کرنا کہ جو ائین مانتا ہے وہ بھائی بھائی جو نہیں مانتا ہے وہ دشمن تو پھر نواب اکبر بگٹی کا جواب دے نواب نوروز کا جواب دیں تو یہ سب سے نہیں میں یہ بہت گنبھیر صورتحال ہے بلوچستان کے اس طرح بھی نہیں ہے جیسے محسن نقوی نے کہا کہ یہ ایک ایس ایچ او کی مارہے ہاں یہ ایک ایس ایچ او کی مارے دیکھیں محسن نقوی کا یہ سٹیٹمنٹ اور یہ بیان یہ بالکل پوری بلوچستان کے عوام اور بلوچستان کے رہنے والے سارے اس کو یقینا بہت منفی نگاہ اور منفی زاویے سے دیکھتے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان بلوچستان کی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے چاہے وہ بلوچستان کی عوام ہو یا پنجاب کی اور اگر اپ کہتے ہیں کہ ایک ایس ایچ او کی مار کا کیا مطلب ہے اپ بلوچستان ایک اور را انور جیسے بندے کے حوالے کریں گے تاکہ وہ دن میں 20 20 لاشیں گریں 40 40 لاشیں گرائیں یہ اپ کو اجازت کون دے گا کوئی بھی بالکل صحیح بات ہے بالکل صحیح بات ہے کوئی اجازت نہیں دے سکتا کہ اپ کیا اپ را انور جیسے آدمی کو بلوچستان میں اکانٹ کریں گے پھر اس سے لوگوں کی لاشیں گرائیں گے یہ حل نہیں ہے بلوچستان کے مسئلے کا حل بندوق نہیں ہے بارود نہیں ہے اس کا حل سیاسی حل ہے مسئلہ سیاسی ہے اس میں بلوچستان کی وسائل کی بات ہے بڑھیاری طور پر بات یہ ہے کہ ائین جو حقوق بلوچستان کو اور بلوچستان کے رہنے والے کو آئین کیا حقوق دے رہا ہے وہ حقوق اپ دیں یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔