سردار اختر مینگل کا استعفیٰ: کیا بلوچستان کی سیاسی شخصیات پارلیمانی سیاست سے بیزار ہوگئیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلو چستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پارلیمنٹ ہاﺅس اسلام آباد کے باہر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کر تے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
اس موقعے پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی سیا ست سے بہتر ہے کہ ’پکوڑوں کی دکان لگا لوں‘۔ سر دار اختر مینگل کے استعفے کے بعد ملک بھر کے سیا سی حلقوں میں ہلچل مچ گئی جس کے بعد مرکز کی حکومتی اور حزب اختلاف کی سیا سی جماعتیں ان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئیں۔
ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں بلو چستان کی امن ومان کی صورتحال سمیت سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ اختر مینگل کو ایوان میں لوٹ آنے کی دعوت بھی دی گئی۔ تاہم اس پر سر دار اختر مینگل نے مؤقف اختیار کیا کہ ’میں نے پہلے ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے‘۔
سردار اختر مینگل کے ایوان سے مستعفی ہونے کے فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں سیاسی اور عام لوگ پارلیمانی سیاست سے اکتا چکے ہیں؟
سینیئر صحافی عرفان سعید نے بتایا کہ سردار اختر مینگل کے حالیہ فیصلے نے ہلچل مچا دی ہے۔انہوں نے کہا کہ در اصل بلوچستان کے لوگ چاہتے بھی یہی ہیں کہ وفاق میں بلوچستان کو کسی نہ کسی طرح توجہ ملے لیکن یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر اس میں بھی بلوچستان کی آواز کو نہیں سنا جاتا تو ایسی صورت میں یہ ایک مثبت اقدام ہے۔
عرفان سعید نے بتایا کہ بلوچستان کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ سردار اختر مینگل جیسے سیاسی لوگ پارلیمان کی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے عمل کا مستقبل میں کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا اور دوسری جانب بلوچستان کے نوجوان بھی پارلیمانی سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کا عملی نمونہ ہم نے سنہ 2024 کے انتخابات میں دیکھی۔
عرفان سعید نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کی پارلیمانی سیاست سے دوری کو مرکز کی جماعتوں کو سنجیدہ طریقے سے دیکھنا ہوگا ورنہ مستقبل میں صوبے سے ایسی آوازیں ختم ہو جائیں گی جو بات چیت پر یقین رکھتی ہیں۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی سید علی شاہ نے کہا کہ سردار اختر مینگل کا پارلیمان سے نکل جانا جمہوریت، جمہوری اداروں، ریاست اور بلوچستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور اس میں بلوچستان ایک اہم اکائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صوبے کی ایک اہم سیاسی شخصیت اگر پارلیمنٹ سے بیزار ہوجاتی ہے تو یہ یقیناً ملک اور جمہوری عمل کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
سید علی شاہ نے کہا کہ دراصل بلوچستان میں ایسی سوچ بھی موجود ہے جس کے مطابق بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بلوچوں کے مسائل کا حل نہیں اب ایسی صورت حال میں جب مین اسٹریم بلوچ قوم پرست سیاسی جماعت کے سربراہ ایسے فیصلے کریں گے تو یہ جمہوری نظام کے لیے صحیح نہیں ہے۔