بلوچستان میں تشدد کے خاتمے کا حل ضرب عضب کی طرح کا ایک فوجی آپریشن ہے،انوارالحق کاکڑ
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)سابق نگران وزیراعظم سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں تشدد کے خاتمے کا حل ضرب عضب کی طرح کا ایک موثر فوجی آپریشن ہے جو جتنا جلدی شروع کیا جائے گا اتنا ہی کم نقصان ہوگاان خیالات کا اظہار انہوں نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں عام طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی واقعے کے ردعمل میں کارروائی کرتے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اور منصوبہ بنایا جائے کہ وہ پہاڑی علاقوں میں بھی پناہ گاہیں نہ بناسکیں۔اس سوال پر کہ کیا ضرب عضب طرز کا آپریشن ضروری ہے یہ آپ کو کرنا پڑے گا اگر آج نہیں کریں گے تو سال بعد کرنا پڑے گا سال بعد نہیں تو 4 سال بعدکرنا ہوگا۔ اس میں ٹائمنگ جتنی بہتر ہو گی اتنا فائدہ ہو گا ورنہ نقصان زیادہ ہو گا۔ پاکستان کے جغرافیے کی تبدیلی کا کوئی خطرہ نہیں مگر خطرہ انسانی جانوں کے تحفظ کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ ان میں یہ صلاحیت بالکل نہیں کہ وہ جغرافیہ تبدیل کر سکیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے بھی وقت کی ضرورت ہیں اور ان کے لیے کسی قتل و غارت کی ضرورت نہیں بلکہ حکومت کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سروس ڈیلیوری کو بہتر کرے۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت اور وزیراعلی کوشش کر رہے ہیں کہ ترقیاتی کاموں کے ذریعے تشدد پسندوں کی سپلائی لائن کو توڑ دیں اور لوگوں کو روزگار کے مواقع اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ دیا جائے۔سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اکثر لوگوں کو بلوچستان کا مسئلہ ہی سمجھ نہیں آتا اس لیے وہ غلط حل پر غور کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تشدد کی وجہ غربت یا عدم ترقی نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند پاکستان کا جغرافیہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے طاقت کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سڑکوں یا بیروزگاری کا مسئلہ نہیں ہے۔ سڑکوں اور روزگار کی صورتحال وغیرہ تو جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں بھی خراب ہے تو وہاں کیوں تشدد اور علیحدگی کی تحریک نہیں چل رہی۔ معاشرے کی تقسیم کا اسٹیبلشمنٹ بھی اثر لیتی ہے مثلا کئی ریٹائرڈ لوگ سمجھتے ہیں بلوچستان میں طاقت کا استعمال حل نہیں ہے مسئلے کے سماجی پہلو کو نہیں دیکھا جا رہا اور بعض اوقات سروس میں موجود لوگ بھی ایسا سمجھتے ہیں مذہبی دہشت گردی کے خلاف جو قوم کا اتفاق نظر آتا ہے وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے کیوں نہیں آتا؟ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف تو ضرب عضب اور ردالفساد جیسا تسلسل نظر آتا ہے بلوچستان میں کسی ایک بھی علاقے پر علیحدگی پسندوں کا کنٹرول نہیں ہے بلکہ انہوں نے گوریلا کارروائیاں شروع کی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ جیسا کہ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے 30 فیصد علاقہ قبضے میں کیا ہوا تھا مگر پھر بھی سری لنکا کی حکومت نے پرعزم کارروائی کے ذریعے ان کو ہرا دیا اور پاکستان میں یہ کام تو اس سے بھی آسان ہے بلوچستان میں پسماندگی اور مس مینجمنٹ ضرور ہے مگر گزشتہ برسوں میں اچھے خاصے کام ہوئے ہیں سنہ 1971 جب سے بلوچستان کا صوبہ بنا ہے تب سے اب تک اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اور سڑکوں میں کافی بہتری آئی ہے اور اب گوادر سے کراچی تک کا سفر 8 گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔ بلوچستان میں ڈیمز، یونیورسٹیاں بنی ہیں اور میڈیکل کالج بھی بنے ہیں مگر یہ بھی کافی نہیں ہیں۔اس سوال پر کہ بلوچستان میں ماہل بلوچ جیسی خواتین خودکش بمبار کیوں بن رہی ہیں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ چونکہ بلوچستان میں سڑک نہیں بنی اس لیے یہ بچی خودکش بمبار بن گئی ماہل بلوچ گوادر کی ہے۔ ان کے والد اور چچا ڈسٹرکٹ ناظم رہے ہیں۔ یہ بچی جب پیدا ہوئی ہوگی تو اس وقت گوادر سے کراچی کا سفر 48 گھنٹوں میں ہوتا تھا جو اب کم ہو کر محض 8 گھنٹے رہ گیا ہے یعنی ان کو انفرااسٹرکچر بھی بہتر ملا تو گویا ان کا مسئلہ کچھ اور ہی ہے۔ یہ جغرافیے کی تبدیلی کا مشن اور مسلح جدو جہد کے ذریعے آزاد بلوچستان کے قیام کی کوشش شدت پسند کہتے ہیں خواتین خودکش بمباروں کا استعمال ان کی جغرافیہ تبدیل کرنے کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ ہے یہ معاملہ صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھی تامل علیحدگی پسند خواتین نے ہی نشانہ بنایا تھا جنگ ایک قبیح عمل ہوتا ہے جس میں فریقین اپنے اپنے طریقے اپناتے ہیں ہمارے ہاں ایک محاذ بیانیے کا اور ایک جنگ کا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک فریق عسکریت پسند ہے اور دوسرا ریاست پاکستان ہے جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی شدت پسند ایک بیانیے کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ جنگ میں ان کو فائدہ ہو مگر جب بھی عسکریت پسندوں سے بات کی جاتی ہے وہ مسنگ پرسن کا ڈیٹا نہیں دیتے کیوں کہ یہ لوگ مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ریاست کو بدنام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کچھ آپریشن میں مارے جاتے ہیں کچھ پاکستان چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر عسکریت پسند ان کی تعداد کو ہزاروں میں دکھا کر عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں اختر مینگل کے پاس اب سیاسی گنجائش کم رہ گئی ہے کیونکہ نہ وہ سرکار کے ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ ہی سرمچاروں(بلوچ علیحدگی پسندوں) کے ساتھ چل پا رہے ہیں وہ کام بلوچ یکجہتی کونسل نے ان سے لے لیا ہے اس وجہ سے وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے مزید بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کونسل عسکریت پسندوں کا سیاسی چہرہ ہے نہ یہ پانی کے معاملے پر بولتے ہیں نہ روزگار کے معاملے پر بولتے ہیں اورنہ اسپتال کے معاملے پر بولتے ہیں بلکہ یہ صرف عسکریت پسندوں کے حقوق کی بات ہی کرتے ہیں اور یہ عسکریت پسندوں کا ماتھ پیس ہیں وہ حکومتی اتحادی کے طور پر عمران خان کے ترجمانوں کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے ہیں اور ان سے ان کا ایک اچھا تعلق تھا عمران خان میڈیا مینجمنٹ اور تاثر بہتر کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے مگر میں نے ان میں گورننس میں بہت کم دلچسپی دیکھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی اور بلوچستان کے معاملات پر بھی عمران خان میں ناپختگی نظر آتی تھی۔سابق نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار ایک حقیقت ہے مگر جو اس کو جائز سمجھے گا وہ آئین سے متصادم بات کرے گاانہوں نے کہا کہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر اس کے باجود یہ موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسے بالکل کم ہونا چاہیے جس کے 2 طریقے ہیں، ایک یہ کہ ان پر فتح حاصل کی جائے جیسا کہ پی ٹی آئی نے یا ماضی میں کچھ جماعتوں نے کوشش کی مگر اس میں ناکام رہے اور شکست کا سامنا کیا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لیڈرشپ کے مظاہرے کے ذریعے ان کا کردار کم یا ختم کیا جائے مگر اس کے لیے بھی 2 چیزیں ضروری ہیں کہ لیڈر کے پاس وژن موجود ہو اور وہ شفاف کردار کا مالک ہو۔