’الوداع، شاید قانون کی حکمرانی کے بعد ملیں‘، کیا اختر مینگل ملک چھوڑ گئے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر خان مینگل کے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کے اعلان کے بعد حکومتی اتحاد سمیت ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست کی تاہم پارٹیوں کی اس فرمائش کو ’ستم ظریفی‘ قرار دیتے ہوئے سینیئر سیاستدان نے ایک بار پھر کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس نہیں لینا چاہتے۔
ایکس پر اپنے ایک پیغام سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ اختر مینگل اب پاکستان میں نہیں رہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ملک جا رہے ہیں اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ وطن بھی چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں۔
اپنے پیغام میں اختر مینگل نے کہا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں نے میرا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جو میں اپنے ساتھ ستم ظریفی سمجھتا ہوں کیونکہ میں پہلے ہی استعفیٰ دے چکا ہوں اور اس پارلیمنٹ میں رہنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ میرا ذہن تبدیل کرسکتے ہیں اور اپنی غلطیوں کے لیے مجھ سے معافی مانگ لیں گے لیکن وہ مجھ سے معافی مانگنے کی بجائے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگیں۔
سینیئر سیاستدان نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اٹھا کر ان کے پیاروں کو آپ نے جو تکلیف دی ہے اسے تسلیم کریں اور صرف اپنی بات کرنے پر تشدد کا نشانہ بنانے پر سمیع اور ماہرنگ بلوچ سے معافی مانگیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں صرف اختر مینگل نہیں ہوں، میں عوام کا حصہ ہوں اور جب آپ ان کے ساتھ (اپنے سلوک کی) اصلاح کرلیں گے تو میرے ساتھ بھی معاملات سدھار لیں گے‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ میں کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں رکھتا لیکن میرے ضمیر نے مجھے یہ فیصلہ (استعفیٰ) کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سب کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے سے انکار ہی کرتے رہے۔
واضح رہے کہ اختر مینگل کا مذکورہ پیغام (ایڈیٹ شدہ) ان کے ویریفائڈ اکاؤنٹ پر جمعرات کو سہ پہر 3 بجکر 41 منٹ پر پوسٹ کیا گیا جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پاکستان سے باہر جا رہا ہوں اور جہاز میں سوار ہوں اس کا مقصد اس بوجھ سے خود کو نجات دلانا ہے جو مہینوں سے مجھ پر تھا۔
اختر مینگل نے کہا کہ اب میں آزاد ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوسروں کو بھی احساس ہوجائے گا قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنی پرواز میں سوار ہوں۔ الوداع، پارلیمنٹ۔ جب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوجائے گی تو شاید ہم دوبارہ ملیں‘۔