بھارتی طیارہ ہائی جیکنگ پر متنازع ویب سیریز، وقوعہ پر موجود عینی شاہدین نے تضادات کی نشاندہی کردی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حال ہی میں بھا رتی ایئر لائن کے طیارے آئی سی 814 کی ہائی جیکنگ پر مبنی نیٹ فلکس کی ویب سیریز ’دی قندھار ہائی جیک‘ ریلیز کے ساتھ ہی تنازعات کا شکار ہوگئی۔ مزید برآں طیارے کے اغوا کی قندھار جاکر مسلسل کوریج کرنے والے پاکستانی صحافی بھی اس ویب سیریز کے کچھ حصوں کو حقائق سے پرے ہی قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی فلمساز انوبھو سنہا کی 6 اقساط پر مبنی ویب سیر یز میں کھٹمنڈو سے نئی دہلی جانے والے طیا رے کے اغوا سے متعلق منظر کشی کی گئی ہے۔ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے 24 دسمبر 1999 کو شدت پسند تنظیم حرکت الانصار کی جا نب سے طیا رہ ہائی جیک کیا گیا ۔
بھا رتی عوام ایک جانب تو ویب سیریزمیں ہائی جیکرز کے نام ظاہر نہ کر نے پر نالاں دکھائی دیتے ہیں (کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ ہائی جیکرز ہندو تھے) تو دوسری جانب پاکستان میں بھی اس ویب سیریز سے متعلق حقائق پو شیدہ رکھنے پر سوشل میڈیا پر شور جاری ہے۔ بھا رتی عوام سوشل میڈیا پرسیر یز کا بائیکاٹ کر نے پر بھی زور دے رہے ہیں۔
سنہ 1999 میں ہائی جیکنگ کے اس واقعے کی کوریج کے لیے دنیا بھر سے صحا فی قندھار پہنچے تھے۔ ان صحا فیوں میں بلو چستان سے تعلق رکھنے والے صحا فی بھی موجو دتھے۔
گفتگو کر تے ہوئے واقعے کے عینی شاہد صحا فی عرفان سعید نے بتایا کہ لاہور میں بھارتی طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کی خبر سب سے پہلے نشر ہونا شروع ہوئی جس کے بعد خبر سامنے آئی کہ لاہور میں ہنگامی طور پر لینڈ ہونے والا بھا رتی طیا رہ قندھار ایئر پورٹ پر ہائی جیکرز کے قبضے میں ہے۔ واقعے کی کوریج کے لیے عرفان سعید کوریج کے لیے ہائی جیکنگ کے اگلے روز قندھار پہنچ گئے۔ اس کے لیے انہیں طالبان سے بہتر روابط رکھنے والی جماعت جمعیت علماء اسلام نظریاتی مدد لے کر اجازت نامہ حاصل کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سر دیوں کا مو سم تھا اور ایئر پورٹ پر اس قدر ٹھنڈ تھی کہ وہاں کھڑا ہونا بھی محال تھا لیکن وہ 5 سے 6 روز تک واقعے کی مسلسل کوریج کر تے رہے۔
عرفان سعید نے کہا کہ حال ہی میں اس واقعے سے متعلق ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں دکھائے جا نے والے واقعات میں صداقت تو ہے لیکن طیا رے میں بارودی مواد کی موجود گی سے متعلق کوئی گواہی نہیں مل سکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران انہوں نے ہر زاویے سے اسٹوریز کیں اور تمام تر واقعات کو رپورٹ کیا لیکن اس دوران متعلقہ حکام نے جہاز میں بارودی مواد کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی۔
عرفان سعید نے بتایا کہ ویب سیریز میں طالبان کے رویے کو کافی منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور کے افغان وزیر خارجہ نے مسافروں اور بھارتی حکومت کی ہر ممکن مدد کی تھی جبکہ سیر یز میں ان کا منفی رویہ دکھایا گیا ہے جو حقیقت نہیں۔
ویجیٹیرین بھارتیوں کے لیے اسلام آباد سے کھانا منگوایا جاتا
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر سیر یز میں وہ حصہ نہیں دکھایا گیا جب مسافروں میں زیا دہ تر ویجیٹیرین (سبزی خور) تھے اور انہیں افغان حکومت کی جانب سے تندور کی روٹی، چکن پیس اور سلاد دیا گیا تو انہوں نے وہ کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا جس کے سبب اقوام متحدہ کا ایک طیارہ روزانہ اسلام آباد جاکر وہاں کے سرینا ہوٹل بھارتیوں کے لیے کھانا لاتا تھا۔
اس مو قعے پر موجود دیگر صحا فیوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ویب سیر یز میں کچھ واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جبکہ کچھ واقعات کو نظر انداز کیا گیا۔
واضح رہے کہ بھا رتی طیارے IC-814 پر 176مسافر اور 11 کے کرو ممبرز موجود تھے۔ طیا رہ 7روز تک ہائی جیکرز کے قبضے میں رہا جس کے بعد ہائی جیکرز کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے اور انہوں نے مسافروں کو رہا کردیا۔
سینیئر صحافی ہارون رشید نے بتایا کہ ویب سیریز میں جہاز کے اندر کے حالات اور بھارتی صورتحال پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم ویب سیریز میں جہاز میں بارودی مواد سے متعلق اس وقت کسی بھی با اعتماد حکام کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
ہارون رشید نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اس وقت اس معاملے پر ہتھیار ڈالنے پڑگئے تھے اس لیے اس طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے بارودی مواد کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔