سائنس کالج آتشزدگی واقعات کی تحقیقات ،تعلیمی اداروں سے سیکورٹی فورسز کو نکالا جائے، آل پارٹیز کانفرنس


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)کوئٹہ کے قدیمی درسگاہ سائنس کالج میں آتشزدگی کے واقعہ پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی ، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماء نصر اللہ خان زیرے ، نیشنل پارٹی کے اسلم بلوچ، این ڈی ایم کے احمد جان نے افسوس اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آل پارٹیز میں شامل جماعتوں نے 12 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈحکومت کو دیتے ہوئے کہا ہے کہ واقعات کی تحقیقات کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی میں طلباء تنظیموں کو بھی شامل کیا جائے اور ایک ماہ کے عرصے میں اس کی دوبارہ بحالی کیلئے اقدامات کرکے ہاسٹل کو بھی فعال بنایا جائے یہ بات انہو ں نے جمعہ کو آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے مشترکہ فیصلوں کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ انہو ں نے کہا کہ تعلیمی اداروں سے سیکورٹی فورسز کو نکالا جائے اور تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کو بحال کیا جائے اور یونیورسٹیوں کی مالی مشکلات کو دور کرنے کیلئے صوبائی ایچ ای سی قائم کرکے بجٹ میں اس کے لئے 15 ارب روپے مختص کئے جائیں اور جو جماعتیں پارلیمان کا حصہ ہیں وہ اسمبلی میں طلباء یونینز کے حوالے سے قانون سازی کیلئے متفقہ قرار دادیں لائیں اور قوم پرست جماعتیں ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ایک فورم پر متحد ہوں حالیہ ایپکس کمیٹی اور وزیر اعظم اور عسکری قیادت کے مشترکہ اجلاس میں جو اشارے ملے ہیں اس سے بلوچستان کی مشکلات اور محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں 13 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں اصغر اچکزئی، نصر اللہ زیرے، مولانا عبدالقادر لونی، اسلم بلوچ، غلام نبی مری، احمد جان، نور باچا، عبدالمتین اخونذادہ، مجتبیٰ زاہد ایڈووکیٹ، نظام کاکڑ، کلیم اللہ بڑیچ، طارق بلوچ، عظمت خان شامل ہیں جبکہ کانفرنس میں اے این پی، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت (نظریاتی) ، نیشنل پارٹی، بی این پی، این ڈی ایم، پی ٹی ایم ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن)، ایچ ڈی پی، بلوچستان پیس فورم، مظلوم اولسی تحریک، پشتون نیشنل نیٹ ورک ، کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتحاد، چیمبر آف کامرس ، جے ٹی اے، ایپکا، اکیڈمک اسٹاف، پروفیسر اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن، پرنسپل سائنس کالج، وائس پرنسپل، باز محمد شہید فائونڈیشن، یوتھ افیئرز طلباء تنظیمیں، طلباء تنظیمیں آئی ایس ایف، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، پی ایس او، بی ایس او،ایچ ایس ایف، اسلامی جمعیت طلباء، جمعیت طلباء اسلام، پیپلز ایس ایف، ایم ایس او، پی ایس او شریک تھیں۔اصغر خان اچکزئی نے سائنس کالج میں آتشزدگی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج اس سانحہ کے حوالے سے گول میز کانفرنس ہوئی جس میں حکومت اور متعلقہ حکام سے سائنس کالج آتشزدگی کے واقعہ سے متعلق حقائق قوم کے سامنے لانے کی اپیل کی ہے کیونکہ اس وقت تک گورنمنٹ سائنس کالج آتشزدگی واقعہ پر اٹھائے گئے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آتشزدگی واقعہ پر بنائی گئی کمیٹی میں طلبا کو شامل کیا جائے واقعہ کے محرکات کو سامنے لایا جائے۔ سائنس کالج میں 8ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔گزشتہ ایک عرصے سے بند سائنس کالج ہاسٹل کو کھولا جائے۔سائنس کالج کے طلباء کیلئے ایک بھی بس نہیں بلوچستان کے بیشتر تعلیمی اداروں کو سیکورٹی کے نام پر یرغمال بنایا گیا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی سے ایف سی کو فی الفور نکالاجائے۔طلبا یونینز پر جاری پابندیوں کو فوری ختم کیا جائے۔بلوچستان میں تعلیمی اداروں کے اندر جبری گمشدگیوں کو ختم کیا جائے۔ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔کانفرنس نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا اقوام متحدہ نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ایک ماہ کے اندر مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا تو سخت ردعمل کا اعلان کرینگے۔وفاقی حکومت نے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں کے رہنمائوں پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے تفتیش کیلئے اٹھا سکتے ہیں کی قانون سازی کومسترد کرتے ہیںاور اسے کالا قانون قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فارم 47 کے حکمران صوبے کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں سائنس کالج 1942ء میں تعمیر کیا گیا جس میں اہم شخصیات زیر تعلیم رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جو محکمے اختیار اور وسائل صوبوں کو منتقل ہونے تھے وہ نہیں ہوئے اس لئے اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن حالیہ منعقدہ میٹنگز میں اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس کی ضرورت تھی اس موقع پر رشید ناصر، مابت کاکا، علی احمد لانگو سمیت دیگر بھی موجود تھے۔