بلوچستان میں رواں سال فروری کے مہینے والے انتخابات شروع سے ہی تنازعات کا شکار

تحریر:عزیز الرحمان سباون

‎بلوچستان میں رواں سال فروری کے مہینے والے انتخابات شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہا جس میں دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ انتخابات میں ان امیدواروں کا آزاد اور پارٹی کی شکل میں سامنے آنا تھا جو یا تو سرے بلوچستان سے تھے ہی نہیں اور یا پھر محض سیاسی فوائد کیلئے بلوچستان کا نام استعمال کرتے آرہے ہیں جو وقتاً فوقتاً ایک سے دوسری سیاسی پارٹی بدلتے رہتے ہیں۔
‎الیکشن 2018 سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے والی بلوچستان عوامی پارٹی کا شیرازہ اس بار ایسا بکھرا کہ سابق اراکین اسمبلی دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پیارے ہونا شروع ہو گئے۔
بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اگر چہ صوبے اور ملک کے زیادہ تر جماعتوں کے نمائندے منتخب ہوئے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر تعداد ان اراکین کے ہے جو پچھلے حکومتوں میں نہ صرف حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں بلکہ مختلف اوقات تواتر سے پارٹیاں بدلتے آرہے ہیں۔ ان پرانے چہروں کے علاوہ بلوچستان سے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں کچھ ایسے آراکین بھی جاپہنچے ہیں جو نئے چہرے کہلائے جارہے تاہم ان میں سے کچھ ایسے آراکین بھی شامل ہے جو نئے کہلانے کے ساتھ ساتھ انتخابات میں کامیاب قرار پانے کے بعد علاقے کے ووٹرز سے متعارف کرائے گئے ہیں۔
دارالحکومت کوئٹہ سبزل روڈ کے رہائیشی رحیم اللہ بتاتے ہیں کہ انکے علاقے سے کامیاب قرار پانے والے نمائندے کو براہ راست تو کیا الیکشن کمپین میں بھی نہ کبھی سوشل میڈیا اور نہ ہی کسی انتخابی پمپلٹ میں دیکھا ہے۔
“میری یہاں مین روڈ پر پرچون کی دکان ہے الیکشن کے دنوں میں یہاں اور آس پاس علاقوں تقریباً ہر وہ شخص جو علاقے سے الیکشن لڑ رہا تھا چاہے وہ کسی پارٹی کا ہوں یا آزاد امیدوار یہاں آتا تھا میٹنگز اور علاقے کی سطح پر جلسے کرتا تھا، الیکشن کے بعد جس شخص کو کامیاب قرار دیا گیا اسے نہ صرف میں بلکہ کوئی بھی نہیں جانتا ہے اور نہ کبھی کہی دیکھا ہے نہ کبھی کوئی کمپین دیکھی اور نہ ہی کوئی سیاسی ایکٹویٹی پتہ نہیں ایسے لوگوں کونسے ووٹ لیکر اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔”
‎الیکشن کمیشن کی جانب سے 2018 کے عام انتخابات کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی سب سے زیادہ سیٹیں باپ پارٹی نے حاصل کیں۔ انتخابی نشان گائے پر الیکشن لڑنے والی پارٹی نے 2018 میں براہ راست 51 حلقوں میں سے 49 حلقوں پر الیکشن لڑا اور صوبے میں سب سے زیادہ 15 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ الیکشن کے بعد 9 آزاد امیدوار بھی پارٹی میں شامل ہو گئے جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 24 ہو گئی۔
‎اس بار شدید تنزلی کا شکار 2018 کے الیکشن کے بعد باپ پارٹی 13 سینیٹرز، 5 ایم این ایز اور 24 ایم پی ایز کے ساتھ ملک کی بڑے پارٹیوں میں شمار ہوئی تھی۔

‎سال 2024 کے الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں پر 1233 امیدواروں میں سے باپ پارٹی کے تین نمائیندے ہی منتخب ہوئے تھے جن میں سے بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے ضیالانگو کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد فلحال باپ پارٹی کے صرف دو ہی منتخب نمائیندے بلوچستان اسمبلی کا حصہ رہ پائے ہیں۔

‎بلوچستان کے عام عوام کے علاوہ پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں ہمیشہ سے کہتی آرہی ہے کہ صوبہ بھر میں ہر بار مقتدرہ قوتیں نئے نام سے پارٹیاں بناکر اور یا پھر بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنے من پسند افراد کو منتخب کراتے آرہے ہیں تاہم ان الزامات کی تردید ہمیشہ دیتی جاتی ہے۔

‎حیران کن طور پر 2018 کے الیکشن میں باپ پارٹی میں جتنے والے امیدواران کا ساٹھ سے ستر فیصد 2024 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا حصہ بن کر دوبارہ حکومت کا حصہ بن پائے ہیں جس سے کسی حد تک یہ دعویٰ صحیح بھی مانا جاتا ہے۔

‎حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان، سینیئر سابق وزیر نور محمد دمڑ، سردار عبدالرحمٰن کھیتران، ربابہ بلیدی، میر عاصم کرد گیلو نہ صرف انتخابات جیتے ہیں بلکہ انہیں مختلف وزارتیں بھی دی گئی ہے۔

‎سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی بڑی وجہ الیکٹیبلز ہیں۔

‎’جب 2018 سے قبل الیکٹیبلز نے یہ دیکھا کہ ہوا کا رخ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب ہے تو وہ نواز لیگ کو چھوڑ کر بی اے پی میں چلے گئے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ اب ہوا کا رخ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب ہے تو انھوں نے پھر ان جماعتوں کا رخ کرلیا جس کی وجہ سے بی اے پی کو کم اور ان کے مقابلے میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں۔‘
‎پرانے چہروں اور نئ پارٹیوں کے علاوہ 2024 کے الیکشن میں بلوچستان سے کچھ ایسے نمائیندے بھی ایوان تک پہنچے ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے ہی نہیں جس کی بڑی مثال جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے طور پر دیا جاتا ہے یاد رہے کہ حالیہ انتخابات میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست کھا گئے تھے تاہم وہ بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
‎مولانا فضل الرحمان کے بلوچستان سے انتخاب لڑنے پر ان کے مد مقابل اے این پی کے امیدوار رشید ناصر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وہ رشید ناصر اسے بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہے تاہم سینٹ انتخابات میں اے این پی کے سربراہ ایمل ولی کا بلوچستان اسمبلی سے سینٹ کے لئے منتخب ہونے سے حالیہ عرصے میں خیبر پختونخوا کی دوسری سیاسی شخصیت قرار پائے جو بلوچستان کے کوٹے سے پارلیمنٹ تک پہنچے جس کے سبب دوسرے پارٹیوں اور بلوچستان کے سیاسی حلقوں کی طرف سے اے این پی اور خاص کر ایمل ولی کو بھی کافی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

‎بلوچستان عوامی پارٹی کے ریٹائرڈ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے ایمل ولی کے بلوچستان سے انتخاب لڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچستان کا حق ہے اس پر اے این پی کو صوبے سے ہی اپنے کسی رہنما یا کارکن کو نامزد کرنا چاہیے تھا تاہم شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں نوے کی دہائی سے تنازعات اٹھتے رہے ہیں۔ پیرا شوٹرز منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ پیسوں کے بل بوتے پر لوگ کامیاب ہوتے رہے ہیں تاہم شہزادہ ذوالفقار ایمل ولی خان کے بلوچستان سے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کو کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے۔
‎ان کا کہنا ہے کہ اخلاقی طور پر تو اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ایمل ولی کو بلوچستان سے اپنے کسی کارکن کو نامزد کرنا چاہیے تھا مگر سیاسی طور پر یہ مثبت بات ہے کہ ان کی جماعت کی بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی موجود ہے اور ان کے انتخاب کے عمل میں پیسوں کا لین دین شامل نہیں۔ وہ سیاسی بنیادوں پر ایک بڑی سیاسی جماعت کی حمایت سے میدان میں اترے ہیں۔
‎تجزیہ کار علی شاہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ اے این پی مستقبل قریب میں بھی خیبر پختونخوا کی سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکے گی۔
‎ان کا کہنا ہے کہ ایمل ولی اپنے آبائی ضلعے میں حلقے کی سیاست میں ناکام رہے ہیں مسلسل انتخابی ناکامیوں کے بعد شاید اے این پی سمجھتی ہے کہ ایمل ولی کی سیاست داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں جاتے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔

‎جبکہ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ایمل ولی خان کو امیدوار نامزد کرنا اے این پی کی صوبائی قیادت اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ ہے۔

حالیہ انتخابات میں بلوچستان سے وہ نمائندے بھی اسمبلیوں تک جاپہنچے ہیں جو پچھلے نگران حکومت میں وفاقی اور صوبائی وزیراتیں سنبھال رہے تھے جن کی بڑی مثال اس وقت کے وزیر اعلی سرفراز بگٹی ہے جو حال ہی میں سینٹ سے نگران وفاقی وزیر داخلہ تک جاپہنچے اور الیکشن سکیجول کے اعلان سے چند گھنٹے ہی مستعفی ہوئے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کے اعلان کے ساتھ ہی الیکشن میں حصہ لینے اور منتخب ہونے کے بعد وزیر اعلی بلوچستان کے کرسی تک جاپہنچے اس کے علاوہ اس لسٹ میں دوسرے نمبر پر جمال رئیسانی بھی ہے جو نگران حکومت میں مہینوں تک صوبائی وزیر کھیل کا بھوج سنبھال رہے تھے اور الیکشن کے آتے ہی مستعفی ہونے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا حصہ بنے اور کوئٹہ میں بلوچوں کے ہی علاقے سے دہائیوں پرانی قوم پرست جماعت کے سربراہ کو شکست دے کر قومی اسمبلی تک جا پہنچے۔
‎یاد رہے کہ حالیہ عام انتخابات میں بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکیں اور ان کی نشستوں کی تعداد گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں مزید کم ہو گئی ہیں۔
‎2013 میں پانچ بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی بلوچستان اسمبلی میں مجموعی طور پر 27 جبکہ 2018 میں چھ قوم پرست جماعتوں کی 18 نشستیں تھیں تاہم اس بار قوم پرست جماعتوں کی نشستوں کی تعداد صرف 8 رہ گئی ہے۔

‎قوم پرست جماعتوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور نتائج میں رد و بدل کے الزامات لگائے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں کی انتخابات میں شکست کی وجوہات ماضی کی غیرمتاثر کن کارکردگی، مقبولیت میں کمی، اندرونی تقسیم، مصلحت پسندانہ اور پرانی طرز سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی قوم پرست مخالف پالیسیاں شامل ہیں۔

‎کوئٹہ میں پچھلے چار دہائیوں سے صحافت کرنے والے تجزیہ کار انور ساجدی کہتے ہیں کہ بلوچستان ہمیشہ براہ راست مرکز کے کنٹرول میں رہا ہے “یہاں پر 1970 کے بعد آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے اور کسی نہ کسی طریقے سے انتخابات کو مینیج کیا جاتا رہا ہے۔ اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں”۔
‎انور ساجدی مذید بتاتے ہیں کہ ’دھاندلی اپنی جگہ خود کو قوم پرست کہنے والی جماعتیں بھی گراؤنڈ پر جا کر ورک نہیں کرتیں۔ وہ حقیقی مسائل اور عوام سے لاتعلق بنی ہوئی ہیں۔ عوامی خواہشات اور ان جماعتوں کی پالیسیوں میں مطابقت نہیں ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسمبلیوں میں جا کر مراعات حاصل کرنا ہے۔ آج قوم پرستوں کی پذیرائی وہ نہیں جو ماہ رنگ جیسی انسانی حقوق کی تحریکوں کی ہے۔‘
‎انور ساجدی کا خیال ہے کہ ’نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کے لوگ حالات اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو رہے ہیں لیکن انتخابات میں دھاندلی سے غیرحقیقی نمائندوں کے آنے سے لوگوں کا پارلیمانی سیاست پر اعتماد مزید ختم ہو گا۔”
حالیہ انتخابات میں بلوچستان میں بلوچ اکثریتی علاقوں میں ٹرن آوٹ کم رہنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے علاقے بھی درج کئے گئے جہاں پر سرے سے کوئی ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوا جس کی وجہ علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کے علاوہ عام عوام کا انتخابات میں بے یقینی بھی بتائی گئی۔
‎ غیرسرکاری تنظیم فافن کے مطابق بلوچستان میں ووٹ پڑنے کی شرح 42.9 فیصد رہی جبکہ 2018 میں اس کی شرح 45.3 فیصد تھی تاہم یہ مجموعی اعداد و شمار ہے اور اس میں ایسے علاقے بھی شامل ہے جہاں یہ شرح علاقے کی سطح پر نوے فیصد سے بھی اضافہ ہے۔

‎نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کہتے ہیں کہ ’بلوچ نوجوان پہلے وفاق سے دورتھے اب ہمارے سیاسی کارکن بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم الیکشنوں میں حصہ لیں یا نہ لیں۔‘

‎مالک بلوچ کہتے کہ اس سے اُنکے سیاسی کارکنوں پر مذید منفی اثرات پڑیں گے اور وہ جمہوریت اور وفاق سے مزید دور ہوں گے