بلوچستان کابینہ میں تبدیلیوں کا امکان، کیا وزیراعلیٰ وزرا کی کارکردگی سے خوش نہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان کی سیاست اپریل میں کابینہ کی تشکیل کے بعد ذرا سست ہوگئی تھی، تاہم اب صوبائی کابینہ میں تبدیلیوں سے متعلق زیرگردش خبروں نے بلوچستان کی سیاست میں پھر سے تیزی پیدا کردی ہے۔ سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا میں بازگشت ہے کہ بلوچستان کابینہ میں رد و بدل ہوسکتا ہے۔ ان خبروں کی پہلے کوئی تصدیق نہیں کررہا تھا لیکن آج ایک نوٹیفکیشن سامنے آیا ہے جس کے بعد صوبائی کابینہ میں اضافے اور تبدیلیوں سے متعلق سوالات کے کسی حد تک جواب مل گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی مینا بلوچ کو وزیراعلیٰ کا مشیر برائے کھیل و امور نوجوانان مقرر کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ کابینہ میں ممکنہ تبدیلیوں سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی کابینہ میں رد و بدل اور اضافے کا امکان موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان چند وزرا کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں، علاوہ ازیں، کئی شخصیات کو مخلوط حکومت میں خوش رکھنے کے لیے کابینہ میں حصہ دیا جائے گا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ صوبائی وزیر صحت فیصل خان جمالی سے صحت کا قلمدان لے کر انہیں لائیو اسٹاک کا محکمہ دیا جائے گا جبکہ لائیو اسٹاک کے موجودہ صوبائی وزیر بخت کاکڑ کو صحت کا قلمدان ملنے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ سی اینڈ ڈبلیو کے وزیر سلیم کھوسو کو حال ہی میں وزارت سے خالی ہونے والے محکمہ داخلہ کا قلمدان سونپے جانے پر غور کیا جارہا ہے، جبکہ نواب چنگیز مری کو کابینہ میں حصہ دیتے ہوئے سی این ڈبلیو کا محکمہ مل سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم کو ممکنہ طور پر 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا بھی سوچا جارہا ہے، جس میں ہائر ایجوکیشن کا محکمہ راحیلہ حمید درانی کے پاس ہی رہے گا جبکہ سیکنڈری ایجوکیشن کا محکمہ نور محمد دمڑ کو مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر کا حلف اٹھانے والے نوابزادہ طارق مگسی جنہیں اب تک کوئی محکمہ نہیں دیا گیا تھا، اب انہیں محکمہ معدنیات ملنے کے امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتوں میں رد و بدل بھی پارٹی کی بنیاد پر ہی ہوگا، اگر مسلم لیگ ن کے کسی وزیر کو تبدیل کیا جارہا ہے تو اس پر مسلم لیگ ن کا ہی رکن اسمبلی محکمے کا قلمداں سنبھالے گا۔ دوسری جانب جمیعت علما اسلام کا بھی وفاق میں حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر وفاقی حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ڈیل ہوجاتی ہے تو جے یو آئی کو ایوان بالا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت میں حصہ دیے جانے پر غور کیا جائے گا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں مخلوط حکومت ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو راضی رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے صوبے میں وزارتوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عام انتخابات میں الیکٹیبلز کی کامیابی بھی حکومت کے لیے کسی ٹائم بم سے کم نہیں ہوتی۔ اس وقت بھی بلوچستان اسمبلی میں الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کابینہ میں اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کو کابینہ کا حصہ بنانا پڑتا ہے، دراصل الیکٹیبلز کسی نظریے کی سیاست تو کرتے نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے حلقوں میں عوام کے سامنے جانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ الیکٹیبلز کابینہ میں حصہ لے کر اپنے حلقوں میں بھی کچھ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں جس سے آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں پسندیدہ یا ناپسندیدہ شخصیات اور الیکٹیبلز کی جانب سے کابینہ کا حصہ بننے پر زور دینے کا معاملہ نیا نہیں۔