سپریم کورٹ اعلامیے میں چیف جسٹس کیلئے ’فکس مدت‘ کے حکومتی ارادوں کی تصدیق
مدت ملازمت سے متعلق چیف جسٹس کی آف دی ریکارڈ گفتگو غلط انداز میں پیش کی گئی، سپریم کورٹ کی وضاحت
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس کیلئے ’فکس مدت‘ کے حکومتی ارادوں کی تصدیق کردی ہے، عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صحافیوں سے گفتگو پر وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی آف دی ریکارڈ کی گئی باتوں کو غلط انداز میں بیان کیا گیا۔
چیف جسٹس کے سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق احمد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ گزشتہ روز عدالتی سال کا آغاز تھا اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو خطابات اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے آخر میں تقریب سے اظہار خیال کیا۔
اعلامیہ کے مطابق تقریب کے اختتام پر شرکاء کو چائے پر مدعو کیا گیا، اس دوران کچھ صحافیوں نے چیف جسٹس کو گھیر لیا، ان سے بات کی اور ان سے سوالات کئے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ ان سے آف دی ریکارڈ بات کر رہے ہیں لیکن چونکہ گفتگو کی غلط تشریح کی گئی اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا، اس لیے ضروری ہے کہ جو ہوا اسے درست طریقے سے پیش کیا جائے‘۔
اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال کیا گیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’کئی ماہ قبل وزیر قانون ان کے چیمبر میں ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت کو تین سال کی فکس مدت تک بڑھانے پر غور کر رہی ہے‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مبینہ جوڈیشل پیکیج کے حوالے سے کہا تھا کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال کرنے یا پھر سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 سال کرنے پر باتیں سننے میں آرہی ہیں۔
جب ان سے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آئینی پیکج کی افواہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپریل کے آخر میں ایک ملاقات کے دوران اس بارے میں پوچھا تھا۔
انہوں نے شیئر کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے زور دیا کہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے اور وہ ایسی کسی ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ایسی کوئی بات زیر غور نہیں ہے تاہم حکومت کو ججوں کی تقرری اور ریٹائرمنٹ سے متعلق تحفظات ہیں۔
جبکہ رانا ثناء اللہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ایک کی جائے، چیف جسٹس کی مدت بھی فکس ہونی چاہیے۔اس حوالے سے چیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ اگر تجویز انفرادی طور پر نافذ کی گئی تو وہ قبول نہیں کریں گے۔
اعلامیہ کے مطابق اس میٹنگ میں سینئر پیونی جج اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔ وزیر قانون نے مدت ملازمت اور ججز کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کا ذکر بھی کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی اک کردار ختم ہوچکا ہے، اس لیے اسے اور جوڈیشل کمیشن کو ایک باڈی میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ اپوزیشن کو مشاور سے خارج نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد وزیر قانون نے چیف جسٹس سے نجی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی چیف جسٹس سے ایسے کسی معاملے پر کوئی بات چیت کی۔
اعلامیے کے مطابق اس موضوع کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کی کہی ہوئی بات سے منسوب ایک فالو اپ سوال تھا۔ جس چیف جسٹس نے جواب دیا کہ میں نے مذکورہ ’جینٹلمین‘ سے ملاقات نہیں کی اور مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کہا، اس لیے اگر کوئی سوال ہے تو براہ راست ان سے بات کریں۔
چیف جسٹس سے کیسز کی تعداد بڑھنے سے ججوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز پر بھی سوالات کیے گئے جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ زیادہ بہتر ہوتا کہ پہلے خالی آسامیوں کو پر کیا جائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ افسوسناک ہے ایک آف دی ریکارڈ گفتگو کو بلا ضرورت اور غلط طریقے سے نشر اور شائع کیا گیا اور غیر ضروری سنسنی خیزی پیدا کی گئی۔