کیا خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جہاں صوبوں اور وفاق کے درمیان امور ناسازگار ہونے کے سبب گورنر راج لگانے کی بازگشت شروع ہوجاتی ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بھی چند وفاقی وزرا نے گورنر راج لگانے کی تجویز دی تھی تاہم یہ آئینی اعتبار سے ممکن نہ تھا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے افغانستان سے بات چیت کرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر وفاق کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگانے کی بازگشت جاری ہے۔
آئین میں وفاق کو صوبے میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ایک پورا باب مختص ہے اور اس میں صوبے میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔
آئین کا آرٹیکل 232 صدر مملکت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر صدر مملکت یہ سمجھتے ہیں کہ صوبے میں ایسی ایمرجنسی درپیش ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہو، اندرونی یا بیرونی شورش کا معاملہ ہو جو صوبے کے کنٹرول سے باہر ہے تو ایسی صورت میں صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں متعلقہ صوبائی اسمبلی سے قراردار کی منظوری لینا ہوگی۔
صوبائی اسمبلی کی قرار داد کے بغیر اگر صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مجلس شوریٰ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے 10 روز کے اندر قرار داد منظور کروائی جانا لازم ہے۔
ایسی صورتحال میں صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا آختیار وفاق کے پاس چلا جاتا ہے۔ وفاق خود یا اپنے نمائندے گورنر کے ذریعے صوبے کے معاملات کو چلا سکتے ہیں تاہم ایسی ایمرجنسی کی صورت میں صوبے کی عدالتیں متاثر نہیں ہوں گی۔
گورنر راج یا صوبے میں ایمرجنسی کی مدت صرف 2 ماہ ہے اور اس کے لیے بھی مجلس شوریٰ سے منظوری لی جائے گی تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک مدت میں ایک دفعہ 2 ماہ کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
آئین کا آرٹیکل 232 کے تحت موجودہ صورتحال میں خیبر پختونخوا میں صدر مملک گورنر راج لگا سکتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عددی اکثریت موجود ہے۔