علی امین گنڈاپور، افغان قونصل جنرل ملاقات، ’افغان حکام سے رابطوں اور ملاقات میں حرج کیا ہے؟‘


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور افغانستان کے قونصل جنرل کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، جس کے بعد ملک بھر میں مختلف سوالات اٹھائے جارہے ہیں، اور وفاق کو بائی پاس کرنے کو فیڈریشن پر حملہ قرار دیا جارہا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کا افغان حکام سے پہلے بھی رابطہ تھا، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رابطہ رہے گا۔ وزیراعلیٰ کی افغان قونصل جنرل سے ملاقات میں حرج ہی کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد جلسے کے اگلے روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور 8 گھنٹے تک پُراسرار طور پر غائب رہنے کے بعد پشاور واپس پہنچ گئے تھے۔ اور صوبائی حکومت نے موقف اپنایا تھا کہ وزیراعلیٰ اسلام آباد میں ایک سیکیورٹی اجلاس میں شریک تھے جس کے باعث ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔
علی امین گنڈاپور پُراسرار گمشدگی کے بعد پہلی بار پشاور میں بار کونسل کی تقریب میں منظر عام پر آئے تو ان کا لہجہ کافی سخت تھا۔
بار کونسل کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے حکومت پر تنقید کی اور افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کرنے کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد علی امین گنڈاپور سے پشاور میں تعنیات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے ملاقات کی۔ اس دوران قیام امن کے لیے تعاون اور اقدامات پر زور دیا گیا۔ جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پڑوسی ملک سے براہِ راست رابطہ کو وفاق پر حملہ قرار دیدیا۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیر سٹر سیف سے اس ملاقات اور اس کے مقاصد کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ ممبران کسی بھی ملک کے قونصل جنرل سے ملاقات کرتے رہتے ہیں اور افغان قونصل جنرل سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ افغان قونصل جنرل سمیت افغان حکام کے ساتھ وہ پہلے بھی رابطے میں تھے اور آئندہ بھی رہیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ’میں نے خود بھی 2 ہفتے پہلے افغان قونصل جنرل سے ملاقات کی تھی اور اس دوران افغان باشندوں سمیت بارڈر اور دیگر مسائل پر بات کی تھی‘۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت سے جب پوچھا گیا کہ کیا افغان قونصل جنرل سے وزیراعلیٰ کی ملاقات پہلے سے شیڈول تھی؟ تو انہوں نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سے سفارتکار ملاقات کرتے رہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ایک باخبر ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ افغان قونصل جنرل کی ملاقات شیڈول تھی، جس کے بعد وہ ملاقات کے لیے آئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ بعض ملاقاتیں بغیر شیڈول کے ہوتی ہیں، جس کا صرف وزیراعلیٰ یا اعلیٰ اسٹاف کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا، افغان قونصل جنرل کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات کافی دیر تک جاری رہی جس میں اسٹاف ممبر بھی موجود تھے۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں افغان قونصل جنرل نے افغان باشندوں کو درپیش مسائل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے سامنے رکھ دیے، جبکہ بارڈر اور ویزا ایشو پر بھی بات کی۔
’علی امین گنڈاپور نے صوبے میں رہائش پذیر افغان باشندوں کے علاج معالجے سمیت ہرممکن سہولیات دینے اور بغیر کسی وجہ کے تنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی‘۔
علی امین گنڈاپور کی جانب سے اچانک افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کے اعلان کے حوالے سے سینئیر صحافی عارف حیات نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کا بیان سیاسی ہے جو مقتدر حلقوں کے ساتھ ناراضگی کو ظاہر کررہا ہے۔
عارف حیات افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کابل میں افغان طالبان حکومت سازی کے دوران کابل سے صورت حال کو کور بھی کیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی ملک سے مذاکرات کا معاملہ ریاست کے پاس ہے تو پھر وزیراعلیٰ کیسے براہِ راست مذاکرات کرسکتا ہے۔ ’وفاق جب افغانستان سے مذاکرات نہیں کرسکتا، تو صوبہ کس طرح کرےگا‘۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد جلسے کے بعد علی امین کا غائب ہونا اور پھر لہجے میں تلخی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ ان کا بیان طاقتور اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
عارف حیات نے کہاکہ پاک افغان معاملات علی امین گنڈاپور کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، بارڈر مینجمنٹ، سیکیورٹی، خارجہ پالیسی یہ سب صوبائی حکومت کا مینڈیٹ نہیں بلکہ وفاق اور اداروں کا دائرہ اختیار ہے۔ ’علی امین چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے، یہاں تک کے صوبے میں قیام پذیر افغان مہاجرین کی توسیع یا واپسی کا فیصلہ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں‘۔
دوسری جانب ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیر سٹر سیف کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ صوبے کا سربراہ ہے اور عوامی نمائندہ ہے جو جس سے چاہے مذکرات کرسکتا ہے۔