فدا احمد بلوچ کا تعلق تربت سے ہے، اور ان کے رشتہ داروں کے مطابق سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے انہیں گرفتاری کے بعد لاپتہ کر دیا ہے . اسی طرح، ایک اور وکیل، ایڈووکیٹ صلاح الدین مینگل کو بھی گزشتہ شب ایک ویگو گاڑی میں سوار سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے زبردستی لاپتہ کیا . بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست نے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں، بالخصوص سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے . ہزاروں افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے، اور ریاستی فورسز، خاص طور پر سی ٹی ڈی، انسانی حقوق کے کارکنوں کو فون کالز کے ذریعے مختلف طریقوں سے اذیت پہنچا رہی ہے . متعدد بلوچ سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے معطل کیا گیا ہے، اور گزشتہ شب بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کے کمروں کی تلاشی لے کر انہیں ذہنی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا جو انتہائی قابل مذمت عمل اور طالبات کو ہراسانی کا نشانہ بناکر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی ریاستی کوشش ہے . فورتھ شیڈول میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے نام شامل کرکے ان کی نشاندہی کی گئی ہے، جس سے ان کے جبری گمشدہ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے . بیان میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور بلوچ عوام کو زندہ رہنے، بات کرنے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، اور ان کی انسانی آزادی و آزادی اظہار رائے کو یقینی بنائیں . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں ایڈووکیٹ فدا احمد بلوچ اور ایڈووکیٹ صلاح الدین مینگل کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے . بیان کے مطابق، گزشتہ رات ایڈووکیٹ فدا احمد بلوچ کو کوئٹہ سے زبردستی لاپتہ کر دیا گیا .
متعلقہ خبریں