آئی ایم ایف پروگرام کے لیے ملکی تاریخ میں مہنگی ترین شرح سود پر قرض لینے کا انکشاف


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے لیے یورپی بینک کے ساتھ 60 کروڑ ڈالر کے تجارتی قرضے کا معاہدہ کیا ہے جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود ہے۔
صحافی شہباز رانا نے انگریزی روزنامے ٹربیون میں شائع ہوئی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزارت خزانہ کو اب تک کی بلند ترین شرح سود کی ادائیگی کی تلخ گولی نگلنی پڑی کیونکہ اسے دو طرفہ خودمختار قرض دہندگان سے کوئی اضافی فنانسنگ نہیں مل سکی۔ حکومت نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک لندن کی 60 کروڑ ڈالر مالیت کے دو قرضوں کی ٹرم شیٹ منظور کرلی ہے۔ ملک قریباً 11 فیصد کی سب سے زیادہ شرح سود ادا کرے گا۔
مجموعی طور پر 30 کروڑ ڈالر مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی فراہمی کے لیے حاصل کیے گئے ہیں اور مزید 30 کروڑ ڈالر سنڈیکیٹ فنانسنگ کے لیے حاصل کیے گئے ہیں۔
فنانسنگ ریٹ (The Secured Overnight Financing Rate) پر مبنی سود کی لاگت پاکستان کو کسی بھی غیر ملکی تجارتی قرض پر ادا کرنے والی سب سے زیادہ شرح ہے۔ وزارت خزانہ ابتدائی طور پر اس معاہدے پر دستخط کرنے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ اس کے مستقبل میں غیر ملکی تجارتی فنانسنگ پر اثرات مرتب ہوں گے۔
عہدیداروں کے مطابق دوطرفہ قرض دہندگان سے اضافی قرض لینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ حکومت نے مہنگے راستے سے بچنے کی کوشش کی لیکن دیگر تمام راستے بند ہونے کے بعد اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا۔ تاہم دوطرفہ قرض دہندگان نے 12 ارب ڈالر مالیت کے کیش ڈپازٹس واپس لینے پر اتفاق کیا، جس کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے معاملے پر غور کرنے کے لیے 25 ستمبر کی تاریخ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔
آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر برائے مواصلات جولی کوزاک نے جمعرات کو کہا تھا کہ ہم خوش ہیں یہ کہہ سکیں کہ بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو ہوگا اور یہ پاکستان کو اپنے ترقیاتی شراکت داروں سے ضروری مالی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد ہوا۔
کوزاک نے کہا کہ نیا توسیعی سہولت فنڈ (Extended Fund Facility) بورڈ کی منظوری سے مشروط اور 2023 کے 9 ماہ کے اسٹینڈبائی انتظامات کے کامیاب نفاذ کے بعد ہوگا۔ مسلسل پالیسی سازی نے پاکستان میں معاشی استحکام میں مدد کی ہے، خاص طور پر ترقی کی بحالی، افراط زر میں نمایاں کمی اور ملک کے بین الاقوامی ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ شامل ہیں۔
اگست کے اوائل میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے پاس غیر ملکی کمرشل بینک قرض کی پیش کش ہے لیکن وہ کوشش کریں گے کہ حکومت کو آئی ایم ایف پیکج کی منظوری کے بعد قرض مل جائے تاکہ کم شرح سود کو یقینی بنایا جاسکے۔
2017 سے 2021 تک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے مجموعی طور پر ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کے 4 مختلف قرضے دیے۔ 2021 کے بعد سے بینک نے کوئی نیا قرض نہیں دیا۔ 2017 میں بینک نے 4.5 فیصد کی مقررہ شرح سود پر 7 کروڑ ڈالر کا قرض دیا۔ 2019 میں 2 کروڑ ڈالر اور 3.25 فیصد شرح سود پر قرض دیا۔ بینک نے 2.4 فیصد شرح سود کے ساتھ ایک ارب ڈالر کی 2 سہولیات بھی دیں۔
پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری کے باوجود بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اب بھی ملک کو قرضے دینے کو انتہائی خطرناک سمجھتی ہیں اور اسے ’سی‘ کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔
سینیئر سرکاری عہدیداروں نے کہا کہ قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ قرض دہندگان کم شرحوں پر فنڈنگ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ملک کو آنے والے برسوں میں مزید غیر ملکی فنانسنگ کی ضرورت ہے کیونکہ اسے قرضوں کی ادائیگی اور بقا کے لیے سالانہ 26 ارب ڈالر کا انتظام کرنے کے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رواں مالی سال کے لیے مرکزی بینک کے گورنر نے کہا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی 26 ارب ڈالر ہوگی، جس میں وہ 16 ارب ڈالر بھی شامل ہیں جو پاکستان ادا نہیں کرے گا اور توقع ہے کہ اس میں اضافہ ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف کی جولی کوزاک نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ پاکستانی حکام اس بات کو تسلیم کریں کہ معیشت کو کامیابی سے مستحکم اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے نئے توسیعی سہولت فنڈ (Extended Fund Facility) پر عمل درآمد ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مضبوط اور پائیدار ترقی کا ہونا بہت ضروری ہے، خاص طور پر نوجوانوں یا ان لوگوں کے لیے جو اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ نئے پروگرام کا اصل مقصد اس رفتار کو برقرار رکھنا ہے اور بالآخر پاکستانی عوام کے فائدے کے لیے مضبوط ترقی اور روزگار کے مواقعوں کے لیے پائیدار ماحول پیدا کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی امنگوں تک پہنچ سکیں۔