مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو سنگین وارننگ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق ابہام کی درخواست پر تحریری آرڈر جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب اُمیدوار ہیں، الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔
ہفتہ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق ابہام کی درخواست پر تحریری آرڈر کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پرعملدرآمد میں تاخیر کے نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی ججزجن میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 12 جولائی کے حکم پر عمل درآمد سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر وضاحت جاری کی، وضاحت مجوزہ آئینی ترمیم کو بھی روک سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے اپنے 4 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ اب تک طے شدہ پوزیشن کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے اراکین پاکستان تحریک انصاف کے ہی کامیاب امیدوار تھے اور اس طرح متعلقہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں ۔
لہٰذا الیکشن کمیشن کی جانب سے آئین اور قانون کے معاملے کے طور پر بالکل واضح ہے کہ چیزوں کو الجھانے اور چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی سختی سے مذمت کی جانی چاہیے۔
کمیشن کی جانب سے شارٹ آرڈر کے پیراگراف 8 (پیراگراف 10 کے ساتھ پڑھیں) کے تحت جاری کی جانے والی فہرست تمام متعلقہ افراد کی معلومات اور سہولت کے لیے وزارتی ایکٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اس کا کوئی واضح اثر بھی نہیں ہے۔ بہرحال، کمیشن کی جانب سے اس قانونی طور پر پابند ذمہ داری کو نبھانے میں مسلسل ناکامی اور انکار کے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کو فوری طور پر ادا کیا جانا چاہیے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کافی ہے اور کمیشن آئین کے مطابق اس بات کو ذہن میں رکھنے کا پابند ہے کہ تسلیم شدہ مؤقف (جیسا کہ اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے بیان کیا گیا تھا) یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایک تسلیم شدہ سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ اس مؤقف کو نہ صرف ہم (آٹھ ججوں) نے قبول کیا اور اس پر اعتماد کیا بلکہ اقلیتی رائے میں ہمارے 3 معزز ساتھیوں چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل) نے بھی اس مؤقف کو تسلیم کیاہے۔
اس سے یہی لگتا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے جاری کردہ پارٹی سرٹیفکیٹ (پارٹی ٹکٹ) کی صداقت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، بیرسٹر گوہر علی خان کے ذریعے پی ٹی آئی کو اس کے چیئرمین کی حیثیت سے نوٹس جاری کرنے کے بعد، کمیشن نے پارٹی اور عہدہ دار دونوں کو بھی تسلیم کیا ہے ۔ یہ مختصر آرڈر کے مقاصد کے لیے کافی ہے۔
مختصر حکم کے پیرا گراف 8 میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ حاصل کردہ نشست فوراً اس سیاسی جماعت کی حاصل کردہ نشست تصور کی جائے گی، کوئی بعد کا عمل اس وقت کے متعلقہ تاریخوں پر ہونے والے معاہدے تبدیل نہیں کر سکتا، طے شدہ حیثیت کے مطابق یہ کامیاب امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، واضح معاملہ پیچیدہ بنانے، ابہام پیدا کرنے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔
مختصر فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ فرض کرنا مکمل طور پرغیر منطقی ہوگا کہ ایک سیاسی جماعت یا فقہی شخص جومکمل طور پر فعال ہے لیکن پھر بھی اسے غیر فعال قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک ہی حقیقت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے سرٹیفکیٹ مختصر حکم نامے کی شرائط میں درست تھے اور کمیشن کی جانب سے جب بھی درخواست دائر کی جائے تو اسے قبول کرنے سے مسلسل انکار آئینی اور قانونی طور پرغلط ہے اور کمیشن کو ایسی مزید یا دیگر کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ضروری ہو۔