ملکی سیاست میں بلاول بھٹو کی بڑھتی اہمیت، آصف زرداری کیا سوچ رہے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایک ٹی وی انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں عدالتی تعیناتی کا وضع کردہ طریقہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس کے حصول کےلیے شاید حکومت کی کوئی رائے ماننا پڑے، دوسری جانب حکمراں اتحاد کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے لیے پارلیمانی اکثریت کے حصول میں بظاہر ناکامی کے بعد آئینی ترامیم کی منظوری کا معاملہ موخر کردیا گیا ہے۔
اس سیاسی پسپائی کے تناظر میں اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لیے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو متحرک کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، کیا بلاول بھٹو زرداری سیاسی طور پر پختہ ہو چکے ہیں یا انہیں صدر آصف زرداری ابھی سیاسی تربیت دے رہے ہیں؟
سینئر صحافی رفعت سعید سمجھتے ہیں کہ اگر آئینی ترامیم کے حوالے سے انتظامات مکمل نہیں تھے تو ’میٹنگ میٹنگ‘ کی ضرورت نہیں تھی، ان کے مطابق صدر زرداری اپنے صاحب زادے کی سیاسی گرومنگ کر رہے ہیں، اس وقت بلاول بھٹو جو مذاکرات کر رہے ہیں یہ سب ان کی سیاسی تربیت کا ہی حصہ ہے۔
لیکن بلاول بھٹو زرداری کو ابھی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے جیسے بے نظیر کی تربیت ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی تو بلاول کی تربیت آصف علی زرداری کر رہے ہیں، بلاول بھٹو وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ اپنا سیاسی مستقبل دیکھ رہے ہیں اور ساری تیاری اسی کی ہے۔‘
رفعت سعید کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت اس آئینی ترمیم کا واضح طور پر انکار کر رہے ہیں اور بہت ساری شقوں سے ان کا اختلاف ہے، اس وقت مولانا اہمیت اختیار کر چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ کون سا کارڈ کب کھیلنا ہے وہ سب سے مل رہے ہیں لیکن کریں گے وہ اپنی۔
رفعت سعید کے مطابق مسلم لیگ آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، دوسری جانب حکومت میں شامل ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی ایک اہمیت ہے، بلاول بھٹو بطور رہنما سیاسی منظر پر ابھرتے جا رہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ آنے والے وقت میں بلاول بھٹو ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ کون چیف جسٹس ہوگا کون نہیں اس کے لیے تو ایک طریقہ کار موجود ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کی اگر بات کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بلاول اس زمانے کا نوجوان ہے جس کا تعلق ایک سیاسی خانوادے سے بھی ہے۔
اے ایچ خانزادہ کے مطابق سیاسی افق پر بلاول بھٹو کے والدین صدر مملکت آصف زرداری اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہتر سیاستدان کوئی نظر نہیں آتا جبکہ بلاول نئی پیڑھی کا سیاستدان ہے۔ ’پرانی پیڑھی کے سیاست دانوں کا اپنا انداز سیاست ہے لیکن نوجوانوں کو نوجوان ہی متاثر کرسکتا ہے اور نوجوانوں کے لیے نوجوانوں کی اپیل ہی کارگر ہوسکتی ہے۔‘
اے ایچ خانزادہ کا کہنا ہے کہ مستقبل کا اندازہ کوئی سیاسی پنڈت نہیں لگا سکتا کہ وہ کیسا ہوگا، کون حاکم اور کون محکوم ہوگا۔ ’لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ بلاول کی سیاسی تربیت میں کچھ کمی رہی ہو، بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں اختلاف تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ باپ بیٹے میں کوئی اختلاف تھا اور نہ ہے، بلکہ اس کا خدشہ بھی نہیں ہے، بلاول کی اس وقت کی سیاست دیر تک قائم رہنے والی سیاست ہے۔‘