بلوچستان، رواں برس کوئلہ کانوں میں حادثات سے 52 محنت کش لقمہ اجل بنے


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)محکمہ معدنیات کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 7 ماہ میں بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں مجموعی طور پر 26 حادثات میں 52کان کن جاں بحق جب کہ 10 زخمی ہوئے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ، ہرنائی اور دکی کی کوئلہ کانوں میں سب سے زیادہ حادثات ہوئیحکومت بلوچستان کے ایک محکمہ کی جانب سے خبررساں ادارے یو این اے کو موصول ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئلے کی تقریبا 400کانیں موجود ہیں، جہاں 13سے 34برس کی عمر کے کم و بیش ایک لاکھ کان کن کام کرتے ہیں، جب کہ صرف 12ہزار کان کن رجسٹرڈ ہیں۔ یہ کانیں ہرنائی، سورینج، دکی، مچ اور چمالانگ وغیرہ میں واقع ہیں،پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے،ملککے چاروں صوبوں میں 185.175ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، بلوچستان کے علاقے، چمالانگ میں کوئلے کا 60کلو میٹر طویل اور 20کلو میٹر وسیع ذخیرہ موجود ہے ، جس کی مالیت اربوں روپے ہے۔انگریزوں نے 1923 میں ایک مائن ایکٹ بنایا تھا۔ یہ قانون کم و بیش ایک صدی بعد بھی اپنی اصل شکل میں برقرار ہے، لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت، کان کا داخلی راستہ 6X7فٹ چوڑا ہونا چاہیے، لیکن رقم بچانے کی خاطر اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا ، پاکستان میں کوئلے کی کانیں موت کی وادیاں بن چکی ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں کوئلے کی وسیع و عریض کانیں موجود ہیں، جہاں سے حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر روایتی طریقوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مزدوروں کی ہلاکت معمول بن چکی ہے۔