سعودی قومی ترانے کے خالق، ابراہیم عبدالرحمٰن حسین خفاجی کون تھے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سعودی قومی ترانہ سعودی عرب کی شان وشوکت اور فخر کی ایک زندہ علامت ہے، جو اس کے عوام کی وطن سے بے پناہ محبت اور اس کی قیادت کے ساتھ گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ترانہ قوم کی روح کی نمائندگی کرتا ہے اور ہر قومی موقعے پر اس کی عظمت کا اظہار کرتا ہے۔
اس ترانے کا خیال پہلی بار شاہ عبدالعزیز کے ذہن میں 1365 ہجری، 1946 میں آیا۔ انہوں نے مصری موسیقار عبدالرحمٰن الخطيب کو حکم دیا کہ وہ سعودی عرب کے لیے موزوں ایک ابتدائی دھن تیار کریں، جو قوم کے وقار اور عزت کی ترجمانی کرے۔ یہ اہم منصوبہ شاہ عبدالعزیز کے دورہ مصر کے دوران عملی شکل میں آیا۔
قومی ترانے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں دوسرا بڑا قدم شاہ سعود کے دور میں ہوا، جب شاعر محمد طلعت نے شاہ سعود کے طائف کے دورے کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے ایک خصوصی نظم تخلیق کی، جو بادشاہ کی عظمت اور وطن کے فخر کو بیان کرتی تھی۔ اس نظم نے قومی ترانے کے تصور کو حقیقت کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جب شاہ خالد کا انتقال ہوا تو اس منصوبے میں کچھ تاخیر ہوئی، لیکن شاہ فہد کے دور میں اس پر نئے جوش و خروش سے کام شروع ہوا۔ وزیر اطلاعات کو اس بات کی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شاعروں سے ایسا قومی ترانہ ترتیب دلائیں جو سعودی موسیقی اور ثقافتی عظمت کے مطابق ہو۔
شاعر ابراہیم خفاجی کو قومی ترانے کے الفاظ تخلیق کرنے کی ذمہ داری دی گئی، اور انہوں نے نہایت مہارت سے ایسے الفاظ ترتیب دیے جو سعودی قوم کی جذباتی وابستگی اور وفاداری کو نئے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ جولائی 1984 میں شاہ فہد نے سرکاری طور پر اس ترانے کی منظوری دی، اور یہ ترانہ سعودی عرب کی شناخت اور فخر کا حصہ بن گیا۔
قومی ترانے کے الفاظ وطن کی محبت، اللہ کی عظمت، اور قومی فخر کی گہری فکر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس میں قوم کو ایک مشترکہ مقصد کی طرف بڑھنے کی دعوت دی گئی ہے
قدم بڑھاؤ جلال وعظمت اور عروج کی جانب، آسمان کے خالق کی تعظیم کرو، لہلہاتا ہوا سبز پرچم بلند کرو، جو کہ نور (لا الہ اللہ محمد رسول اللہ) کا حامل ہے۔ اے میرے وطن! اللہ اکبر کی صدا بلند کر، میرے وطن، تو مسلمانوں کے فخر کے طور پر آباد رہے، بادشاہ آباد رہے پرچم کے لیے، وطن کے لیے‘۔
سعودی قومی ترانے کے خالق، ابراہیم عبدالرحمن حسین خفاجی، 1345 ہجری 1926 میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی اور ثقافتی خاندان سے تھا، جس نے ان کی فکری اور ادبی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔ مکہ مکرمہ کا مقدس ماحول اور خاندانی وراثت نے ان کے ادبی ذوق کو فروغ دیا۔
تعلیم کے دوران ہی ان کی ادبی صلاحیتیں نمایاں ہونے لگیں، اور بعد ازاں، انہوں نے سرکاری محکموں میں خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ ادبی میدان میں بھی اپنی شناخت بنائی۔ ان کی شاعری سعودی ثقافت کی گہرائی اور عرب دنیا کے جذبات کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ سعودی قومی ترانے کے الفاظ کی تخلیق تھا، جسے انہوں نے 6ماہ کی محنت سے مکمل کیا۔
ان کی خدمات کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور انہیں سعودی عرب کے اعلیٰ ترین اعزازات میں شامل (میڈل آف میرٹ) اور (شاہ عبدالعزیز ایوارڈ) سے نوازا گیا۔ 1439 ہجری 2017 میں ان کی وفات کے بعد بھی ان کا ادبی ورثہ سعودی قوم کے دلوں میں زندہ ہے۔
ابراہیم خفاجی کی شاعری سعودی قوم کی روح کی عکاس ہے، اور ان کا تحریر کردہ قومی ترانہ ہمیشہ سعودی عرب کی عظمت اور وقار کا حصہ رہے گا۔