پولیس یا سرکاری افسر پر ریپ کا الزام ثابت ہوجائے تو کیا کارروائی ہوتی ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد کے پمز اسپتال سے 2 بچوں کے اغوا اور ریپ کے الزام میں ملوث ملزم سب انسپیکٹر صہیب پاشا کو منگل کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولس کے حوالے کردیا گیا ہے۔ منگل کو علاقہ مجسٹریٹ تھانہ کراچی کمپنی شہزاد خان کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت سے 7روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی مگر عدالت نے 4 روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس سے کہا کہ کیس میں پیشرفت کرکے آئندہ پیشی پر ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت کی جانب سے ملزم کو ہتھکڑیوں کے بغیر عدالت میں پیش کرنے پر برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس دوران بچوں کے والد منیر احمد نے بتایا کہ وہ ڈی ایس پی کے پاس گئے تھے، جنہوں نے سب انسپیکٹر صہیب پاشا کو بلا کر کافی زیادہ بے عزتی کی۔ اس کے علاوہ صہیب پاشا نے مجھے گاڑی اور پیسوں کی آفر کی، اور کہا کہ اس کے بدلے کیس واپس لے لو۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ میرے بھی بچے ہیں، جس کے جواب میں، میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ کے بھی بچے ہوتے تو آپ میرے اور میرے بچوں کے ساتھ اتنا ظلم کبھی بھی نہ کرتے۔ میں فوج، آئی جی اسلام آباد اور میڈیا کے توسط سے یہ اپیل کرتا ہوں، کہ مجھے صرف انصاف چاہیے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے مزید ان کا کہنا تھا کہ جو اس شخص نے میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ وہ ایک انسان نہیں بلکہ درندہ تھا۔
وہ میری منتیں کر رہا ہے، اور کہہ رہا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اگر ان کے چھوٹے بچے ہیں، تو میرے بھی تو بچے چھوٹے ہی تھے۔ مجھے اتنی کالز آرہی ہیں۔ ہر دوسرا بندہ کہہ رہا ہے کہ ہم سے آکر ملیں، جبکہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ مجھے صرف انصاف چاہیے۔ میں بس سب سے بار بار درخواست کرنا چاہتا ہوں، کہ میرے معصوم بچوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، مجھے اس کا انصاف چاہیے‘۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان شریف اللہ خان نے وی نیوز کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ سب انسپیکٹر صہیب پاشا کے خلاف جو بھی الزامات ہیں، اس کے مطابق ایف آئی آر ہو چکی ہے اور اب ان تمام الزامات کی انویسٹیگیشن جاری ہے۔
اگر کسی پولیس والے پر اس طرح کے الزامات ہوں، تو پولیس کے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اس کے حوالے سے کیا قوانین ہیں؟ اس بارے میں پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ ایف آئی آر ہی درج کرسکتا ہے، جو کہ درج کر لی گئی ہے، اس کے علاوہ تحقیات ہو رہی ہے۔
’اگر ان کے خلاف عائد تمام تر الزامات سچ ہوئے تو عدالت کی جانب سے انہیں سزا دے دی جائے گی، اور ملزم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس صورت میں اسے نوکری سے فوری طور پر نکال دیا جائے گا، اور باقی عدالت کے مطابق جو بھی سزا دی جائے گی، وہ تو ظاہر ہے، انہیں کاٹنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بات پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بچوں کے باپ کے ساتھ رابطے کی ہے کہ پولیس کی جانب سے معاملے کو سلجھانے کے حوالے سے رابطے کیے جا رہے ہیں، تو میرے علم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ ہی یہاں سے کوئی ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ لیکن ہاں صہیب کے خاندان میں سے کوئی ہے، یا خود صہیب ہیں تو وہ الگ بات ہے۔
کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے کیسز کم آتے ہیں، لیکن ایسا ہوتا ہے کہ پولیس والے براہ راست ریپ کیسز میں شامل ہوتے ہیں۔ میں خود کئی کیسز اس طرح کے ڈیل کرچکا ہوں، ٹھیک سے یہ تو یاد نہیں ہے کہ کل کتنے کیسز لڑے ہیں۔
مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں تک سزا کی بات ہے، اگر ان کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو جرمانہ، عمر بھر قید کے ساتھ سزائے موت، اور کوئی بھی شخص گورنمنٹ ملازم ہے تو جرم ثابت ہونے پر فوری نوکری سے برخاست کرنے کا قانون ہے۔