آئی ایم ایف کے نئے پروگرام سے عام آدمی کو کیا فائدہ اور نقصان ہوگا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کی منظوری دی جا چکی ہے جس کی پہلی قسط کے طور پر 1.1 ارب ڈالر جاری کیے جائیں گے جبکہ قرض پروگرام 37 ماہ پر محیط ہو گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کو 30 ستمبر تک 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے۔ جب کہ قرض پروگرام کی منظوری کے بعد اسی مالی سال میں دوسری قسط بھی متوقع ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری سے پاکستان کے معاشی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کی توقع ہے اور پاکستان پر ادائیگیوں کا دباؤ بھی کم ہوگا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک گر سکتی ہے۔ شرح نمو بھی 2.8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پاکستان کو کچھ کڑی شرائط کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ماہرین کی نظر میں آئی ایم کے اس بیل آؤٹ پیکج سے عوام کچھ فائدے اور کچھ نقصانات ہوں گے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر خرم شہزاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ پروگرام ملنا کامیابی ہے کیونکہ اتنا بڑا پروگرام حاصل کرنا آسان نہیں تھا لیکن چیزوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا تاکہ پاکستان اس پروگرام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ یہ وقت اس لیے بھی بہترین ہے کہ عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے ایک سال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں، مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی، شرح سود میں کمی ہوئی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کاروبار بحال ہونگے، کاروباری افراد پیسہ لگائیں گے اور انفلوز بڑھیں گے جس سے معیشت میں بہتری آئے گی‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 3 سال میں ہم تمام اصلاحات خصوصاً انرجی اور ٹیکس کی اصلاحات کرسکیں گے اور اگر ہم اس میں 50 سے 60 فیصد بھی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بھی کافی ہوگا اور اس سے معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔
ماضی کا تجربہ اتنا سخت ہے کہ حکومت کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے اور حکومت کی جانب سے جو گزشتہ ڈیڑھ سال میں مشکل فیصلے کیے گئے ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا اور اگر پاکستان اب بھی اصلاحات نہیں کر پایا اور 3 قسطوں میں بھی اگر تاخیر ہو جاتی ہے تو پھر ملک کے وہی حالات ہو جائیں گے جو 2 سے 3 سال پہلے تھے‘۔
خرم شہزاد نے کہا کہ آئی ایم ایف اس پروگرام سے ایک عام فرد کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی ہوگی البتہ اگر پاکستانی معیشت مستحکم رہتی ہے اور معیشت میں بہتری آتی ہے تو آنے والے وقت میں عوام کو ضرور فائدہ ہوگا۔
صحافی شہباز رانا نے آئی ایم کے اس پروگرام کے حوالے سے بتایا کہ اس پروگرام کے 4 بڑے ستون ہیں جن میں نجکاری، حکومتی اداروں کو بہتر بنانا، مالیاتی اور توانائی سیکٹر کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹیکس محصولات میں اضافے کا منصوبہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 3 ہزار 6 سو ارب کے نئے ٹیکسز حکومت کی جانب سے لگائیں جائیں گے، آئی ایم ایف کی توجہ بجلی کی قیمتوں کو بڑھانا ہوگا اور آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی شرط بھی ہے جو ماضی میں بھی دیکھی جاتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں نئی چیز یہ ہے کہ پہلے صرف وفاقی سطح کے بجٹ کو شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن اس بار صوبائی سطح کے بجٹ بھی شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پروگرام میں 10 سے 12 ایسی شرائط ہیں جو براہ راست صوبوں کے بجٹس کو متاثر کریں گی۔
شہباز رانا نے کہا آئی ایم کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حکومت 3 سال تک صوبوں کو گیس اور بجلی پر سبسڈی نہیں دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے حساب سے یہ آئی ایم کا سب سے مشکل پروگرام ہے کیونکہ پاکستان آئی ایم سے پروگرام لے لیتا ہے مگر پورا نہیں کرتا جس کی وجہ سے اگلا پروگرام مزید مشکل ہوجاتا ہے اور پھر آئی ایم ایف ماضی کی جو چیزیں بچ جاتی ہیں ان کو بھی پروگرام میں شامل کردیتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اپنا پچھلا 3 ارب ڈالر کا قرض پروگرام اپریل میں مکمل کیا تھا اور گزشتہ ماہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اپ گریڈ کی۔
آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے لیے کیوں ناگزیر تھا؟
معاشی ماہر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کے لیے اس لیے بہت ضروری تھا کہ اگلے 4 برس پاکستان کو اپنے خسارے کو پورا کرنے کے لیے 25 سے 26 ارب ڈالر ایکسٹرنل فنانسنگ میں چاہیے ہوں گے اور یہ اس وقت تک ممکن نہ ہوتا جب تک پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہ چلا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے 1 ڈالر ملے یا پھر 7 ارب ڈالر عالمی ادارے کا لیٹر ہی کافی ہوتا ہے کہ کوئی ملک آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے کیونکہ اس پروگرام سے اس ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کریڈٹ ریٹنگ ہی بہتر ہی نہیں ہو گی تو ہم نے گزشتہ چند برسوں میں دیکھا ہے کہ چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کو بھی یہ مشورہ دینا پڑا کہ آئی ایم ایف پروگرام جائیں اس کے بعد ہی وہ کچھ مدد کر سکیں گے اس لیے آئی ایم ایف کا لیٹر آف کریڈٹ ضروری تھا۔
عابد سلہری نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ٹیکس کا جی ڈی پی ریشیو اگلے 3 برسوں میں 3 فیصد تک بڑھانا ہوگا اور آج اگر وہ 10 فیصد پر ہے تو اسے 13 فیصد پر لے کر جانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے ہمارے اخراجات اس لیے ضروری ہیں کہ جو اسٹیٹ اور انٹرپرائزز میں خسارہ ہو رہا ہے ان کی نجکاری کی جائے اور اگر اس پروگرام کے تحت ایسا ہوجاتا ہے تومیکرو اکنامک انڈیکیٹرز خودبخود بہتر ہو جاتے ہیں۔
عابد سلہری نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کرنا کسی بھی ملک کے لیے اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا شہریوں کے لیے ہوتا ہے کیونکہ حکومت کو اپنی کارکردگی کی بنا پر ووٹ لینے ہوتے ہیں لیکن اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملتا تو اس کا اثر فوری طور پر روپے کی قدر پر پڑتا اور اس کی قدر گرنے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی جس سے عوام کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام عام آدمی کے لیے مشکل ہے مگر پروگرام نہ ہونا زیادہ تکلیف دہ ہوتا۔