سوات: پولیس مقابلے میں ہلاک ڈاکوؤں کی تدفین مقامی قبرستان میں کیوں روکی گئی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)خیبرپختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات میں مقامی افراد نے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ڈکیت گروپ کے 2 ممبران کے جنازے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے ان کی مقامی قبرستان میں تدفین بھی نہ ہونے دی۔
مقامی افراد اور پولیس کے مطابق گزشتہ رات مٹہ اور خوزہ خیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اس وقت احتجاج کے لیے نکل آئے جب مٹہ میں مبینہ مقابلے میں ہلاک ڈاکوؤں کی لاشیں آبائی علاقے میں لائی گئیں، اس موقع پر مظاہرین نے نعرہ بازی کی اور ڈکیت گروپ کے خاندانوں کو علاقہ بدر کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
مٹہ میں پولیس مقابلہ کب پیش آیا تھا؟
پولیس کے مطابق منگل کی رات سوات کے علاقے مٹہ میں مسلح افراد کی موجودگی کی اطلاع پر نفری موقع پر پہنچ گئی تو ملزمان نے فائرنگ کردی۔
پولیس نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 2 مسلح افراد ہلاک ہوگئے جبکہ ان کے 3 ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر جنگل میں فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق واقعے کے بعد لاشوں کی شناخت ہوگئی جو خوزہ خیلہ اور مٹہ کے رہائشی نکلے اور بدنام زمانہ ڈکیت گروپ کے سرگرم ممبر تھے۔
پولیس پر فائرنگ کی اطلاع مٹہ میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مقامی افراد بھی مسلح ہو کر پولیس کی حمایت میں نکل آئے۔
اس واقعے سے پہلے سوات میں غیرملکی سفیروں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر پورے سوات میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
پولیس پر فائرنگ کی اطلاع ملنے پر سابق رکن اسمبلی ایوب اشاڑے بھی مسلح ہوکر باہر نکل آئے اور رات بھر علاقے میں موجود رہے۔
قبرستان میں تدفین کو روک دیا گیا
خوزہ خیلہ سے تعلق رکھنے والے حسین خان نے وی نیوز کو بتایا کہ سفیروں پر حملے کی کوشش اور مٹہ واقعے کے بعد سوات میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، اور اسی دوران ہلاک ایک ڈاکو کی لاش کو جب علاقے میں پہنچایا گیا تو مقامی افراد باہر نکل آئے اور احتجاج کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ڈاکو کا تعلق گجر خاندان سے تھا اور ڈکیتی کی کارروائیوں سے پورا علاقہ تنگ آگیا تھا۔
حسین نے بتایا کہ ڈاکو کے اہل خانہ کے افراد ان کی تدفین مقامی قبرستان میں کرانا چاہتے تھے، لیکن اہل علاقہ نے ان کی مخالفت کی۔
’پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ڈاکو سے سب لوگ تنگ تھے، کیونکہ ان کی وجہ سے سوات کا امن خراب ہوا اور بدنامی ہوئی، اسی وجہ سے سب نے مشترکہ طور پر اس کی مخالفت کی‘۔
انہوں نے بتایا کہ اہل علاقہ نے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی اور اس وقت احتجاج کیا۔
انہوں نے مزید کہاکہ اہل علاقہ کی جانب سے احتجاج اور مخالفت پر مقامی قبرستان میں تدفین کا عمل روک دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مٹہ واقعے میں ہلاک دوسرے ڈاکو کا تعلق مٹہ کے نواحی گاؤں سے تھا، وہاں بھی لوگ نکل باہر نکل آئے اور احتجاج کرکے مقامی قبرستان میں تدفین کو روک دیا۔
حسین نے کہاکہ مقامی افراد کی جانب سے احتجاج پر ہلاک ڈاکوؤں کے اہل خانہ نے میتوں کو ذاتی زمین میں سپرد خاک کیا۔
‘سوات کا امن خراب کرنے والوں کے خلاف نکلیں گے‘
حسین خان نے بتایا کہ سوات کے باسیوں نے سب کو پیغام دیا ہے کہ یہاں علاقے کا امن خراب کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مٹہ فائرنگ کے بعد پوری رات مقامی لوگ مسلح ہو کر پولیس کے ساتھ موجود رہے، اور مساجد میں پولیس کی حمایت میں نکلنے کے لیے اعلانات ہوئے۔
دہشتگردی کے خلاف احتجاج
دوسری جانب سوات قومی جرگے نے ضلع میں بدامنی اور دہشتگردی کے خلاف جمعہ کے روز احتجاج کا اعلان کیا ہے، جو جمعے کی نماز کے بعد مینگورہ میں ہوگا۔