بلوچستان میں بڑھتے ہوئے پولیو کیسز کا اصل سبب کیا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان کے ضلع پشین سے چند روز قبل 30 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 22 تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں سب سے زیادہ 15 پولیو کیسز بلوچستان، 4 سندھ جبکہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور اسلام آباد سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔
وزیر اعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق نے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیو کا ہر نیا کیس ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جس کی زندگی اس موذی مرض سے متاثر ہوئی ہے۔ بحیثیت والدین، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو جیسی قابل علاج بیماری سے محفوظ رکھیں جو کہ مذہبی اور قومی دونوں لحاظ سے اہم ہے۔ اس بیماری سے بچاؤ کا واحد مؤثر حل ویکسینیشن ہے۔
ایک جانب پولیو حکام ویکسین کے استعمال پر زور دے رہے ہیں، دوسری جانب پولیو حکام نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ صوبے میں کئی مقامات پر فیک ویکسی نیشن مارکنگ بھی کی گئی ہے۔ پولیو ورکرز اور قطرے پلانے سے انکاری والدین میں گٹھ جوڑ بنا کر جعلی مارکنگ کر رہے تھے جس میں پولیو ورکرز بچوں کو قطرے پلائے بغیر انگلیوں پر نشانات لگانے میں ملوث پائے گئے۔گزشتہ ماہ 500 پولیو ورکرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی جس میں ورکرز 74 کو فارغ کردیا گیا۔
بلوچستان میں پولیو کیسز میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ پولیو کے قطروں سے انکاری والدین کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ پولیو حکام کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک 4828 والدین پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرچکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ لوگ چمن اور کوئٹہ کے ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے قادر آباد کے رہائشی شخص نے وی نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ رواں ماہ اس کے 2 سالہ بیٹے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ بیٹے کو اچانک بخار ہوا تو وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ رپورٹس ٹھیک آئیں مگر اگلے ہی روز اس کا ایک پاؤں مڑ گیا۔ بعد میں پولیو ٹیم نے ٹیسٹ کیے تو پتا چلا کہ اسے پولیو ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا ’میرے 4 بچے ہیں جن میں سے 3 بچے مکمل تندرست ہیں۔ انہیں پولیو کے قطرے باقاعدگی سے پلاتا رہا ہوں لیکن اس بچے کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے۔ ‘
بلوچستان میں اکثر والدین پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔ بعض کا موقف ہے کہ یہ ایک مغربی سازش ہے جبکہ بعض پولیو کے قطرے کو مردانہ کمزوری پیدا کرنے والی ویکسین تصور کر بیٹھے ہیں۔