کیا احتجاج اور دھمکیوں سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ ہو گا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں احتجاجی سیاست کا اعلان کر رکھا ہے۔ ہفتے کے روز راولپنڈی میں احتجاج کے لیے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ایک قافلہ اسلام آباد داخل ہونے سے قبل ہی واپس روانہ ہو گیا، جس کے بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ اگر ہمیں ایک مرتبہ مارا جائے گا تو ہم 10 مرتبہ ماریں گے۔ اگر ہمیں گولی ماری جائے گی تو ہم بھی گولا ماریں گے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے میانوالی، ملتان اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔
تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا جس طرز کی سیاست علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کر رہی ہے اور جس قسم کا احتجاج کیا جا رہا ہے، کیا اس قسم کی سیاست سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہو گا؟
تحریک انصاف جتنا پر امن رہے گی اتنا اچھا ہے
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف جتنا پر امن رہے گی اتنا اچھا ہے۔ جتنا زیادہ تشدد کریں گا۔ اتنا ہی نقصان ہوگا۔ 9 مئی کے تشدد کا حال ہم سب کے سامنے ہے کہ کتنا نقصان ہوا۔ اگر پھر سے اس طرح کا کوئی واقع دوبارہ ہو جاتا ہے۔ تو حکومت کو انہیں دبانے کا موقع مل جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد اگر آئینی ترامیم بھی منظور ہو جاتی ہیں۔ تو پی ٹی آئی اگلے چند ماہ میں جس تبدیلی کی توقع کر رہی تھی، اس کا چانس بالکل ختم ہو جائے گا۔
نظام چل پڑا ہے
سہیل وڑائچ کے مطابق کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے۔ ورنہ یہ نظام چل پڑا ہے۔ اور اب یہ خطرات اور خدشات سے نکل آئے ہیں۔اگر آئینی ترمیم بھی ہو جاتی ہے، اور آئی ایم ایف سے قسط مل جاتی ہے تو اس حکومت کو اب کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
جنگ اور احتجاج کی بات خطرناک ہے
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے ہی یہ کہا گیا کہ جلسے جلوس نہیں کرنے اب بس احتجاج کرنے ہیں۔ تو جس قسم کا احتجاج کیا گیا۔ اس سب کے بعد انہیں احتجاج کی کوئی بھی اجازت نہیں دے گا۔ ٹیئر گیس، لاٹھی چارج وغیرہ اس قسم کے احتجاج میں ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پی ٹی آئی اگر اس نیت سے آئے گی کہ ہم نے تو جنگ لڑنی ہے انقلاب لانا ہے۔ یہ صورتحال ملک کے لیے تو خطرناک ہے۔
پُر امن احتجاج کے نام پر جو کر رہے ہیں،وہ کہیں بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے۔ علی امین گنڈا پور کی سیاست کس قسم کی ہے۔ عمران خان صاحب کی کس قسم کی سیاست ہے۔ اس کا فائدہ قطعی طور پر نہ پی ٹی آئی کو ہوگا، نہ عمران خان کو اور نہ ہی علی امین گنڈا پور کو ہوگا۔ دنیا میں کوئی بھی اس قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کیونکہ آپ جمہوریت اور پُر امن احتجاج کے نام پر جو کر رہے ہیں، جو کہہ رہے ہیں۔ وہ کہیں بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔
علی امین گنڈا پور بھی شاید چیف منسٹر نہ رہ سکیں
اس حوالے ان کا مزید کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور جس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور بھی شاید چیف منسٹر کے پی نہ رہ سکیں۔ اور صوبے میں جو ان کی حکمرانی ہے ان سے چھن بھی سکتی ہے۔ کیونکہ جس قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، میرا نہیں خیال کہ عدالت بھی نظر انداز کر سکتی ہے۔کیونکہ اس قسم کی دھمکیوں کے بیحد سنگین نتائج ہوتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور مشکلات بڑھا رہے ہیں
سینیئر تجزیہ کار ارشاد عارف نے کہا کہ علی امین گنڈا پور جس قسم کے دھمکی آمیز قسم کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ کچھ دن قبل جب میں ان سے ملا تھا تو میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ آپ ایک ایسے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں جو پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ آپ کو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان یا اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل بنیں۔ اس کے علاوہ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو بھی غلط فہمیاں ہیں، اسے دور کریں۔ بجائے اس طرح کے رویے سے آپ اپنی، صوبے اور پارٹی تینوں کی مشکلات بڑھا رہے ہیں۔
ڈنڈے کا استعمال جمہوری رویہ نہیں ہے
ارشاد عارف کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک احتجاج کا معاملہ ہے۔ جمہوری حکومت سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ آئین کی خود بھی پاسداری کرے اور جو عوام کا، کسی سیاسی ورکر اور پارٹی کا حق ہے اس کا احترام کرے۔ اس طرح کی پابندیاں لگانا، ڈنڈے کا استعمال کرنا، یہ کوئی جمہوری رویہ نہیں ہے۔
آئین پر سب کو عمل کرنا ہوگا
ان کا کنا تھا کہ اس احتجاج سے عمران خان یا پارٹی کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہے۔ ماضی میں اس طرح کی مزاحمتی تحریکوں کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنا ہے تو آئین پر سب کو عمل کرنا ہوگا، اور آئین نے عام شہری کو جو حقوق دیے ہیں، ان کا احترام کرنا ہوگا۔