کراچی میں خارش قابو سے باہر، اس کا علاج کیا ہے؟
کراچی(قدرت روزنامہ)پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں گزشتہ 2 ماہ سے خارش (اسکیبیز) کی بیماری پھیلتی جارہی ہے اور ہر دوسرا گھر اس وائرس کی لپیٹ میں ہے،اب تک اس کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو اس کے بارے میں آگاہی فراہم نہیں کی جارہی۔
شہری معمول کے مطابق کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے اپنے گلی محلے کے ڈاکٹرز کا رخ کرتے ہیں، اب تک کی معلومات کے مطابق متاثرہ شہری کو انجیکشن لگا دیا جاتا ہے یا اسے اینٹی الرجک دوا دے دی جاتی ہے جبکہ اس بیماری کا علاج ایسے ممکن نہیں، احتیاط نہ کرنے کی صورت میں یہ بیماری پھیلتی جاتی ہے۔
اسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر غلام محمد بروہی نے اس حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ اسکیبیز ایسی بیماری ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگتی ہے، اس بیماری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بیماری پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں عام پائی جاتی ہے۔
یہ بیماری دوسرے انسان میں کیسے منتقل ہوتی ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر غلام محمد بروہی کا کہنا تھا کہ یہ بیماری ہاتھ ملانے، کسی کے کپڑے استعمال کرنے، کسی کا بستر استعمال کرنے یا متاثرہ فرد سے کسی بھی طریقے سے ملاپ یا اس کی کسی بھی چیز کو استعمال کرنے سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور اس کی ایک پہچان یہ ہے کہ یہ خارش رات کے وقت شروع ہوتی ہے، اس بیماری کا وائرس سوائے چہرے کے پورے جسم کو لپیٹ میں لے لیتا ہے، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ سوکھی خارش ہوتی ہے، ہمارا چہرہ چکنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ خارش چہرے پر نہیں آتی۔
کیا احتیاط کی جاسکتی ہے؟
ڈاکٹر غلام محمد کے مطابق اس بیماری میں متاثرہ شخص اپنے آپ کو گھر یا کہیں بھی دوسرے افراد سے دور رکھے، ہاتھ ملانے اور گھلنے ملنے سے اجتناب کرے، اپنے ذاتی استعمال کی اشیا کو کسی کے ساتھ نا بانٹیں، سونے کے لیے استعمال ہونے والا بستر چادر سمیت دیگر اشیا کو دور رکھا جائے اور صفائی کا خیال رکھا جائے ،ممکن ہو تو دن میں 2 بار نہایا جائے۔
بیماری لاحق ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟
ڈاکٹر غلام محمد کے مطابق اس بیماری میں لاحق ہونے والا انسان اگر بڑی عمر کا ہے تو اینٹی الرجک کی گولی کھائے، اور اگر بچہ ہے تو اسے اینٹی الرجک کا شربت دیا جائے، اس کے علاوہ پرمتھم لوشن جو 3 راتوں تک نہانے کے بعد پورے جسم پر لگایا جاتا ہے اور اس دوران تینوں راتوں کی چادر تبدیل ہونی چاہیے اور تینوں روتوں کے کپڑے الگ ہونے چاہیں۔
عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت
ڈاکٹر نور سید کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ کم علمی اس بیماری کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، شہری یا تو متعلقہ مرض کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے یا پھر انہیں احتیاطی تدابیر نہیں بتائی جاتی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک جراثیم ہے جس سے نجات کے لیے احتیاط ضروری ہے ورنہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے گھر کو لپیٹ میں کے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اتنا خطرناک مرض تو نہیں لیکن اگر احتیاط نا کی جائے تو یہ راتوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مریض آتے ہیں اور انجکشن کی فرمائیش کرتے ہیں جبکہ اس کے علاج کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ ہے اور احتیاطی تدابیر ہیں ورنہ یہ مرض جان نہیں چھوڑے گا۔