پی آئی اے کی نیلامی اب 31 اکتوبر کو، ہر مرتبہ تاخیر کیوں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت نے مشکل معاشی حالات کے باعث سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کی فوری نجکاری کا اعلان کیا تھا۔ پی آئی اے کی نجکاری کافی عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔
نگراں دور حکومت میں اس وقت کے وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ نجکاری کا کام 98 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور نئی منتخب حکومت کے آتے ہی پی آئی اے کی نجکاری کر دی جائے گی جبکہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے مارچ میں بھی پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کیا تھا اور پہلے جون اور پھر اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ اب کہا گیا تھا کہ سب کچھ مکمل ہے اور یکم اکتوبر کو بولی ہو گی تاہم ایک مرتبہ پھر سے 31 اکتوبر کی تاریخ دے کر نیلامی مؤخر کر دی گئی ہے۔
نجکاری کمیشن کے ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے سب کچھ کر لیا گیا ہے اور حتیٰ کہ جو معاہدہ ہونا ہے اس کا مسودہ بھی تیار کیا جا چکا ہے تاہم پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے فی الحال مزید تفصیلی جائزہ لینا چاہ رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت جو بھی پی آئی اے کو خریدے گا اسے پہلے سال میں 80 ارب روپے پی آئی اے کو چلانے کے لیے چاہیے ہوں گے اور اس کے علاوہ اسے 200 ارب روپے کا قرض واپس کرنا ہو گا۔
پی آئی اے خریدنے کے لیے سب سے پہلے 8 کمپنیوں نے رابطہ کیا تھا جس کے بعد 6 نے کوالیفائی کیا تاہم اس وقت صرف 2 کمپنیاں ایئر بلیو اور بلیو ورلڈ سٹی پی آئی اے کی خریداری میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
بلیو ورلڈ سٹی نے بین الاقوامی کنسلٹنٹ رکھا ہوا ہے جو کہ ہمارے ساتھ مختلف میٹنگ کر چکا ہے اور تقریباً تمام معاملات کا جائزہ لے چکا ہے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن پہلے واضح کر چکے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل جون میں ہونا تھا تاہم دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیوں نے کچھ وقت مانگا اور پی آئی اے کا جائزہ لینے کا تقاضا کیا بعد ازاں ان کمپنیوں کے نمائندوں نے پی آئی اے کا دورہ کرایا گیا۔ کمپنیوں نے جہازوں کا معائنہ کیا، پی آئی اے کے عملے کی تفصیلات دیکھیں، انجن کی مرمت کا ریکارڈ تک دیکھا اور 2 کمپنیاں تو بیرون ملک کمپنیوں سے بھی معائنہ کرا رہی ہیں۔
عثمان باجوہ کے مطابق اس وقت تک ان کمپنیوں کے ساتھ 3 میٹنگ ہو چکی ہیں اور انہوں نے تمام تفصیلات فراہم کرنے کے باوجود مزید تفصیلات مانگی ہیں اور کہا ہے کہ بولی کا عمل اکتوبر تک مؤخر کرایا جائے۔ چوں کہ کمپنیاں ابھی پی آئی اے کے خسارے اور قرض کی ادائیگیوں کا جائزہ لے رہی ہیں اور وقت مانگ رہی ہیں، اس وجہ سے نجکاری میں مزید تاخیر ہوئی ہے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کی بات گزشتہ 10 سالوں سے کی جا رہی ہے، اگر نجکاری سنہ 2015 میں ہو جاتی تو بہت بہتر ہوتا اور ملک کا اربوں کا نقصان نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی وجوہات بھی نجکاری میں رکاوٹ بنی، نجکاری پروگرام اگر مکمل اور کامیاب ہو گا تو اس کے لیے تمام کو ساتھ دینا ہو گا۔ کمرشل بینکوں کو قرض پر 10 ارب روپے سود ماہانہ دینا ہوتا تھا تاہم اب بینکوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد شرح سود کو 23 فیصد سے کم کر کہ 12 فیصد تک کر دیا ہے۔
عثمان باجوہ نے کہا کہ حکومت کی تیاری تو اس حد تک ہے کہ اس نے معاہدوں کے ڈرافٹ بھی کمپنیوں کے ساتھ شیئر کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیاں 75 فیصد شیئرز کا حصول چاہتی ہیں جبکہ ایک کمپنی تو 100 فیصد شیئر حاصل کرنا چاہتی ہے۔