سابق چیف جسٹس نے کتنے اراکین پارلیمنٹ کو جیل بھیجا؟ میرا گناہ یہ ٹھہرا کہ میں برداشت کرجاتا ہوں،چیف جسٹس
آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی درخواست پر دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل کی مداخلت پر چیف جسٹس کے ریمارکس
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی درخواست پر دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے کتنے اراکین پارلیمنٹ کو جیل بھیجا؟ میرا گناہ یہ ٹھہرا کہ میں برداشت کرجاتا ہوں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی درخواست کی دوران سماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکیل کی مداخلت، روسٹرم پر آکر بولنا شروع کردیا۔ کہا باہر 500 وکیل کھڑے ہیں دیکھتے ہیں ہمارے خلاف کیسے فیصلہ آتا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے وکیل سے اظہار لاتعلقی کیا تو چیف جسٹس بولے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اب دھمکی دی جارہی ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس نے کئی ارکان پارلیمنٹ کو جیل بھیجا میرا گناہ یہ ہے کہ برداشت کرجاتا ہوں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں،مجھے دشمن نہ بنائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اداروں کو ایسے چلانا چاہتے ہیں؟ روز کہا جاتا ہے ججوں کے 2 گروپ ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن آپ کی پارٹی کی درخواست پر ہوا،اس وقت گالیاں کیوں نہ دیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے ایک جج صاحب نے کچھ لوگوں کو ضمانت دی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی اپنے مؤکل سے جیل میں ملاقات کرنے کی دوبارہ استدعا، بینچ کی تشکیل پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔ کہا اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آکر دلائل دینا چاہے وہ دے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہے، یہ بینچ قانونی نہیں ہے، یہ بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں۔
بینچ پر اعتراض عدالت نے مسترد کردیا
بیرسٹر علی ظفر کا بینچ پر اعتراض عدالت نے مسترد کردیا، بینچ کے ارکان نے کمرہ عدالت میں ہی بیٹھ کر مشاورت کی۔ عدالت نے کہا کہ ٓپ کے اعتراض کی درخواست متفقہ طور پر مسترد کی جاتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ ہو جائے تو اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں، عدالت نے بینچ کی تشکیل پر بیرسٹر علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران ہی بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر ہماری سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا ہی نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے ہی سنا تھا۔
سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا بینچ پر اعتراض عدالت نے مسترد جبکہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کی استدعا منظور کرلی۔ عدالت نے جیل میں فوری ملاقات کرانے کی ہدایت کردی۔ علی ظفر نے بینچ میں فیصلہ دینے والے جج کو شامل کرنے پر اصرار کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوشش تو کی تھی مگر کسی کو مجبور نہیں کرسکتا۔