کارساز حادثہ کیس: ملزمہ نتاشا دانش کو رہائی کے بعد کن چیزوں کا سامنا ہوگا؟


کراچی (قدرت روزنامہ)کارساز حادثہ کیس میں ملزمہ نتاشا دانش کو ضمانت مل چکی ہے، اس واقعہ سے متعلق 2مقدمات زیر سماعت ہیں، ایک مرکزی مقدمہ جس میں معاملات سمجھوتے تک پہنچ گئے ہیں لیکن اب تک عدالت کی جانب سے سمجھوتا منظور نہیں کیا گیا جبکہ اس سمجھوتے کی نقل جمع کرانے اور بیانات دینے پر ملزمہ کی ضمانت منظور کی گئی۔ دوسرا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں امتناع منشیات کا ہے جس میں گزشتہ روز سندھ ہائیکورٹ نے نتاشا کی ضمانت 10لاکھ روپے کے عوض منظور کی گئی ہے۔
اب کون سے قانونی راستے اپنائے جائیں گے
اس حوالے سے قانونی ماہر خیر محمد خٹک کا یہ کہنا ہے کہ مرکزی مقدمے کا دار و مدار عدالت کے احکامات پرہے، اگر تو دیت پر یا اللہ کی رضا کے لیے متاثرہ فریقین ملزمہ کو معاف کرچکے ہیں اور عدالت کے رو برو اس بات کا اقرار بھی کرچکے ہیں تو عدالت کی منظوری کے بعد مرکزی مقدمہ ختم ہوسکتا ہے لیکن دوسرا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہوا ہے اور اس میں چالان بھی جمع ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسرے مقدمے میں نتاشا کو ہر پیشی پر عدالت کے روبرو پیش ہونا پڑے گا کیوں کہ چالان کے بعد مقدمہ میں فرد جرم عائد کی جائے گی اور اس کے بعد باقاعدہ طور پر مقدمے کا ٹرائل شروع ہوجائے گا۔
پولیس کے سامنے اعتراف جرم کی کیا اہمیت ہے؟
پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ ملزمہ منشیات استعمال کرنے سے متعلق اعتراف جرم کرچکی ہیں جبکہ قانونی ماہرین کے مطابق پولیس کے سامنے اعتراف کرنے کی قانونی حیثیت کچھ خاص نہیں ہے۔ قانونی حیثیت اس اعتراف کی ہے جس کو دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو درج کیا جاتا ہے۔
دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان کیا ہے؟
قانون کے مطابق متعلقہ مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف جرم کرنا اور اس کے لیے قانونی تقاضے یعنی پولیس کی جانب سے عدالت سے بیان قلمبند کرنے کے لیے وقت مانگا ہو اور عدالت نے ملزم کو بیان سے قبل سوچنے کا وقت دیا ہو، اس کے بعد بند کمرے میں بنا کسی دباؤ کے ملزم کا بیان لیا ہو، اسے مجسٹریٹ نے خود تحریر کرکے سیل کیا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس بیان کے گواہ خود مجسٹریٹ بن گئے ہیں۔
اگر مجسٹریٹ کو متعلقہ کیس میں اگر بیان کی تصدیق کے لیے طلب کیا جائے تو مجسٹریٹ اللہ کو حاضر ناظر جان کر گواہی دے سکے کہ یہ بیان جو تحریری طور پر عدالت کے سامنے موجود ہے میں نے قلمبند کیا ہے اور یہ ملزمہ یا ملزم کا اپنا بیان ہے تو ایسے بیان کو اعترافی بیان سمجھا جائے گا، لیکن نتاشا دانش کے حوالے سے اب تک پولیس نے اعترافی بیان قلمبند کرنے کے لیے عدالت سے کوئی وقت نہیں مانگا اور اب چوںکہ ملزمہ پولیس کی حراست میں نہیں ہے تو اعترافی بیان قلمبند کرنے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔
فرد جرم کیا ہوتی ہے؟
ملزمہ نتاشا دانش کے مقدمہ میں اب نقول فریقین کو فراہم کی جائیں گی جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد ہوگی، فرد جرم سے مراد ملزمہ پر امتناع منشیات کیس سے متعلق لگائے گئے الزام کے حوالے سے عدالت پوچھے گی کہ آپ پر سرکار کی جانب سے منشیات استعمال کرنے کا الزام ہے آپ کا کیا کہنا ہے؟ اگر تو ملزمہ کہتی ہیں کہ یہ الزام درست ہے تو عدالت وہیں ملزمہ کو سزا سنا کر جیل بھیج سکتی ہے لیکن ملزمہ نے اس الزام سے انکار کیا تو مقدمہ کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوجائے گا۔
مقدمہ کے ٹرائل میں کیا ہوگا؟
چارج فریم یا فرد جرم عائد ہونے کے بعد عدالت کیس کے گواہوں کو نوٹس جاری کرکے طلب کرتی ہے ان کے بیانات قلمبند ہوتے ہیں اور بیانات ہونے کے بعد ان پر جرح ہوگی جرح ہونے کے بعد مقدمہ پر فیصلہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اگر شواہد اور گواہوں کے بیانات سے جرم ثابت ہوا تو سزا ورنہ بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔